Thursday, October 7, 2021

اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دھوکے میں ڈالا

 کہانی سنانے بیٹھے تھے اور خموش زبان سے کہنے لگے کہ سن تو لیا ہے اور کہیں کیا

بات اتنی سی اک جاگیر دار نے زمین کسی کی ضبط کرلی اور اسکو چاہ تھی کہ وہ اپنی مملکت بڑھائے ... ضبط جس کی، وہ یتیم تھا اور فریادی تھا اسکی فریاد پکار تھی. وہ ایک سے ایک کہتا رہا کہ میری زمین مجھے دلوا دو مگر کسی نے سنی ہی نہیں. سننے والے "کان " تھے مگر "کان " بہرے رہے. وہ روتا رہا. دیکھنے والی آنکھیں مگر " اندھی " رہیں اور اسکی چیخ و پکار " اندھوں و گونگوں کے دیس میں کوئ سن نہ پایا.... یہ اک دِن روتے روتے بینائی والا مل گیا. اس نے اسکو پکڑا، دلاسہ دیا اور کہا "اللہ دیکھ رہا ہے " یتیم کو سمجھ نہ آئی بات کہ " اللہ دیکھ رہا ہے " اللہ اگر دیکھ رہا ہے تو سب اندھے کیوں ہیں؟ وہ بینائی والا اسکو کہہ گیا "انتظار کر "
جاگیر دار کی زمین میں قحط آگیا اور قحط سے گاؤں والے تنگ ..جاگیر دار کی زندگی بھی عسرت میں بسر ہونے لگی ... اس کو اب اللہ یاد آنے لگا. اس نے اعلان کرایا کہ اب جو مجھے اس قحط سے نجات کا نسخہ لا کے دے گا، میں اسکو یہ اتنی زمین "ہبہ " کردوں گا ....
وہ بینائی والا جاگیردار کے پاس گیا اور کہا پڑھا کرو
یا اللہ یا رحمن یا کریم یا ذوالجلال رب انی مغلوب فانتصر
.اے اللہ تو رحمن ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو رحیم ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو کریم ہے، مجھے اپنے جیسا بنا
اے اللہ تو جلال والا، اکرام والا ہے
ترے جلال کے آگے میں مغلوب ہوں، میری مدد کر
جاگیر دار نے اس کلمے کو اک دفعہ پڑھا، اسکے سینے میں وہ کلمہ روشن ہوگیا ...جیسے روشن ہوا ...اس پر رقت لگ گئی اور رقت میں وہ ساجد ہوگیا ...بینائی والے نے سر پر ہاتھ رکھ کے
اے جاگیردار، تجھے کس بات نے اس رب سے دھوکے میں رکھا؟
وہ تو اس بینائی والے کے قدموں میں لپٹ کے رونے لگ گیا اور عجز میں ڈھلتا گیا اور اپنا آپ اللہ کو سونپ دیا ...جیسے جیسے وہ یہ کرتا جا رہا تھا، قحط ختم ہوتا جارہا تھا