تنہائی کی شام میں
آہٹ کی دستک میں
چپ کی دوپہر میں
خامشی کے پہرے میں
اللہ بول رہا ہے
منادی ہورہی ہے
کسی یومِ سعید کی بات ہے
کسی سعید سے بات ہے
جانے مقدر کس اور پر
سدا سہاگن، صاحب والی کو
سمت دیے جارہا ہے
ہر سمت میں وہی سعید ہے
اور خاموشی کی دوپہر میں
اللہ بول رہا ہے
تم حامی شہرِ صدا کے ہو
تم والی صدیوں کے رواج کے
تم نقد جاں لیے کیوں پھر رہے
اس نے ابھی سودا نہیں مانگا
اس نے ابھی شہ رگ نہیں کاٹی
تم مت کہو ابھی
فصل لربک وانحر
تم اب ادا کرو
اور وقت کے مذبح خانے میں جاؤ
وہیں پر اللہ بول رہا ہے
یہ ماہ ذیقعد تم.پر گزر ہا ہے
یہ آیت کی روانی ہے
تمھاری موج در موج میں
ایک ھو کا عالم ہے
اس ھو کے عالم میں
اللہ بول رہا ہے
آج اللہ بول رہا ہے
آج سب خاموش ہیں