Friday, November 12, 2021

عشق ‏دی ‏کھیڈ

چاہنے کے لیے چاہا جانا چاہیے
پہچان کا سیاپا 
عشق دی کھیڈ اے 
اونہے دل اچ لائ اے 
کھیڈو اگ دے دیوے بال کے 
اونہوں دل وچ مان کے.
جان تے جائیے 
انہوں من منائیے 
عشق دی کھیڈ اے 
اونہے دل اچ اگ لائ یے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق مٹی دا بالن اے

سنو 
حرف لے لو 
تمھاری امانت 
تمھارے حرف 
مرے چند لفظ 
سنو 
تم چاہت لے لو 
تم چاہت بانٹ دو 
بس پھر وہی ہے 
وہی جو سیپ ہے 
وہی جوہر ذات 
کامل و اکمل سائیں 
اللہ کی ہے پرچھائیں 
رادھا رادھا بول سائیں


روح جل رہی کہ دل ہے 
شام مل رہی کہ سانول ہے 
دل میں تڑپن ہے کہ آ مل 
مل جائے سانول یار تے رنگ سنہرا 
مل جائے سانول یار تو چال شب دیگ سے نکلی سنسار میں رنگ چھوڑتی ہوا ہے

اب تمھیں کیا بتاؤں کہ کیسے ہوتا ہے یہ سب؟ کیسے بتاؤں کیوں ہوتی ہے جلن یا دھواں جس کی اصل یہ ہے حقیقت ہے. دھواں کسی خوشبو کا نشان ہے


بے نشان دھواں 
بے  بے دھواں 
کہہ رہا ہے رواں رواں 
آرہا ہے جینے کا قرینہ 
سینہ ہے کہ مدینہ 
جل رہا ہے کہ دل کہ روح ہے 
جلتا ہے دل پے پاؤں نہیں 
جلتا ہے دل پے آنکھ نہیں 
صورت مورت ویکھی جاواں 
میں کھو گئی آں پیا 
سانول یار سونا اے 
لے چلیا اس پار، جس پار اک بات راز ہے.
راز دیرینہ ہے 
سینہ ہے کہ مدینہ ہے 
جبل النور ہو یا طور ہو 
چار نشان جل جائیں تو 
تقویم مکمل ہو 
آؤ مکمل تقویم میں 
آؤ کملی میں چھپ جائیں 
دیری نہ ہو جائے 
دیری ہوئ تو لکدے لکدے رات لنگ جانی


جانت ہو، مانت ہو 
پیا گھر جاؤ گی 
تو بتاؤ گی 
پریت کا دھواں ہے 
نشانوں میں بنٹا دل ہے 
ہر نشان میں یٰسین و طٰہ 
ہر بات میں اللہ والی جھنکار 
کلام میں گویا ابوالکلام 
دل کے ہاتھ میں بیضائی ہالہ 
دل کہے شہ والا شہ والا

جانب طور ہو، تم مخمور ہو 
جانب سرورر ہو تم مجبور ہو؟  
جانب ظہور ہو،  تم موجود ہو


وہ ہے نا تو احساس ہے. احساس ہے نا تو جلن ہے. جلن ہے تو دھواں ہے. دھواں ہے تو رواں رواں ذاکر ہے اور مذکور ہے آیتِ طٰہ


یسین کی فضا میں آیتِ طٰہ 
دل میں تیر چلا، کہا منتہی 
ابتدا سے چلو نا 
ابتدا میں رہو 
کن میں رہو 
فیکون چھوڑ دو راب دی راہ وچ 
رکھ لی جھولی اچ جندڑی دے سول 
سولاں وچ چانن گنوایا اے 
اے عشق دے کھیڈ انوکھی ہے 
ایڈ اچ جان چھٹڈی سوکھی نہیں 
روکھی سوکھی کھا، پی لے تے یار دے بوہے دی کنڈی نہ ٹٹول. نہ بوہا چھوڑا، نہ واج مار


واج لگ جاوے گی جد 
اوس ویلے راکھ اڈ جاوے گی 
اتھرو وگ جاون گے 
لمیاں جدائیاں کٹ جاون گیاں 
راکھی باندھن.آلے چلے آون گے 
بھیناں دے بھرا 
کہون گے 
عشق دے کھیڈ رچائی اے 
لکا آپ جیہڑا بڑا ہرجائ اے 
عشق دی کھیڈ بڑی اوکھی 
جان نہ چھٹے اس وچ سوکھی


جناب طاہر جناب مطہر جناب سید جناب عالی جناب سردار جناب روحی جناب افلاک پر مقیم کسی طائر سے جانب وادی سرور ہے. آنکھ میں کیسا نور ہے. دل جلا ہے گویا جبل النور ہے. وہ جو وجہ ظہور ہے اس میں بات ضرور ہے. اس میں.وہ آپ ضرور ہے. راگ میں الاپ کا کانٹا ہے رادھا چلی سانول.یار نال اور روپ نگر کی چنر کا رنگ لال ہے 
لال رنگ چنر ہماری 
لال رنگ چنر تمھاری



Thursday, November 4, 2021

فلک ‏،شمس

آسمان تمھارا ہے. اس کے دل پر شمس نے رخِ عناب سے محویت طاری کی ہے. سب یک ٹک ھو، سب یک ٹک سو!  جاناں کے طواف چار سُو، کو بہ کو. منصور کے قبلے کو جانو  شین قاف اور حـــــا مـــیم سے مسافر سدرہ کا سفر جانب منتہی. خواہش سلوک میں ڈھل گئی اور سالگ خواہش ہوگیا. راستہ سیدھا ہوگیا اور اللہ مرشد ہوگیا  اللہ کی تکبیر من ہادی من الا اللہ. کچے ڈھاگے کی ڈور، من نین کی ندیا میں چور،  کون جانے کس کے موڑ، چلی ہے باد جانے کس اوور  

سنو،  ہدایت یافتہ 
سنو،  تہہِ نہاِں سے سہہ نہاں کی حاجت میِں رہنے والے محجبوب شمس، کسی رنگساز کی طرح ڈھل رہا یے  تراشا یے اسکس باردگر کے رعنائ بن عیوب ریے

خدا ‏سے ‏تعلق

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہور،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور

اللہ ‏دل ‏دے ‏اندر

اللہ دل دے اندر.
صاحب نے کیا مست مست 
اللہ دل دے اندر 
صاحب کی سہاگن ہوئ. 
اللہ دل دے اندر.
سہاگ سلامت رہے سدا 
اللہ دل دے اندر 
فانی، باقی میں فنا ہوا 
اللہ دل دے اندر 
حجاب در حجاب اٹھا 
اللہ دل دے اندر 
مستوں کو مست کیا 
اللہ دل دے اندر 
مست ولائے حیدری قافلہ 
اللہ دل دے اندر 
حسینی قافلہ تیار 
اللہ دل دے اندر .... 
سجدہ شبیری کے لیے چلے 
اللہ دل دے اندر 
پیار والے کا پیار سلامت 
اللہ دل دے اندر.
چکر پے چکر دمِ وصلت 
اللہ دے دے اندر 
مست مست کیتا صاحب نے 
اللہ دل دے اندر.
صاحب کے ساتھ مست 
اللہ دے اندر 
حال میں قال نہ رہا 
اللہ دے اندر 
زبان ساکت روح متحرک 
اللہ دے اندر 
ادب جھکا،  جھکا ہی رہا
اللہ دل دے اندر 
مستوں کا نگہبان 
اللہ دل دے اندر 
وجد میں روحان 
اللہ دل دے اندر 
روح ہے یا فرقان 
اللہ دل دے اندر 
فکر میں ترا دھیان 
اللہ دل دے اندر 
اللہ دل دے اندر 
سبحانی سبحانی 
اللہ دل دے اندر 
من رآنی، من رآنی 
اللہ دل دے اندر 
مازاغ کی قسم 
دیدار میں مست مست
صاحب نے کیا مست 
ازلوں کے ساتھ میں 
ابد کے دھاگوں میں 
اللہ دھیان میں ہے 
اللہ دل میں اترا ہے 
صاحب نے بنایا سہاگن 
مست مست مست مست

سچے ‏!

سچے!  تری سچائی کی قسم رب نے کھائی 
سچے!  تجھے حق کی صدا دی ہے سنائی 
سچے!  ترے ذکر میں ہے فکرِ خدائی 
سچے!  تری بات میں اسکی ہے  رعنائی 
سچے!  خوب ترا دل، ملا ذوقِ شکیبائی 
سچے!  رب نے کیا تجھے پاسِ شہنائی 
سچے!  آنکھ تری نور سے ہے بھر آئی 
سچے!  اللہ دل دے اندر،  اللہ دل دے اندر 
صاحب نے کیتا تینوں مست مست

خود ‏احتسابی

میں لکھنے میں لکھوں کیا. لکھوں تو سمتِ بے بہا میں ڈوبی ہوں .. گویا اس سے جا ملی ہوں. سوچتی ہوں اسکا آئنہ تھی مگر علم کا حیطہ اس آئنہ کو صیقل نہ کرسکا. میں حسد و جلن کا شکار رہتی تھی.احساس کمتری سے یہ حسد و جلن نکلتا ہے اس وجہ سے مجھے لگتا تھا یہ شخص مجھ سے جلتا ہے یا حسد کرتا ہے .... میں بہت جلد کینہ پال کے بغض و عناد کے پہاڑ بنادوِ تو مجھے لگتا ہے کہ سامنے والا بغض رکھتا ہے. سامنے والا میرے لیے کینہ رکھتا ہے. میں نے کسی کو معاف کرنا سیکھا نہ تھا اس لیے مجھے لگتا ہے یا لگا کرتا تھا سامنے والا کبھی مجھے معاف کرنی کی صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ظالم ہے ...  کیا میں جو "گمان " رکھ رہی تھی ویسے لوگ بن نہیں رہے تھے؟ لوگ کبھی بھی زہریلے نہیں ہوتے. لوگ تو ہمارا آئنہ ہوتے ..  پھر اللہ نے کچھ ظرف بخشا اس کی مہربانی شاہ صاحب کی عنایت تو میں نے خود کو بدلتا پایا.   دل بدلا تو لگا میں نے عناد پالا. جب کینے کا پردہ چاک ہوا تو اپنے ارداگرد افراد کی مجبوری، درد کے چہرے،  دکھ تکالیف کے ردعمل دکھے ...جب ردعمل پر مرہم رکھا تو دل میں ایسا سکون اترا جیسا کہ انسان امر ہو جائے. جب ضبط کرنے پر ضبط کیا تو آنسو کے ساتھ خدا کے ہونے کا احساد بھی ہوا .. پھر مجھے احساس ہوا کہ خدا کیسے ملتا ہے ...مگر یہ دل کی بیماریاں وہ چاہے تو ختم ہوتی وگرنہ ہمیں وہ احساس دلاتا رہتا ہے جیسا کہ مجھے دلا رہا ہے میں بیمار ہوِں 
مجھے یقین ہے جو بیمار کرتا ہے وہی شفاء دیتا ہے ....اس بات کی سمجھ اب آئ: فثمہ وجہ اللہ.  ہر جانب میرا چہرہ ہے ...اس کی صورت جمال سے ہر شے لپٹی ہے یعنی سورہ الشمس کی مثال فالھمھا فجورھا فاتقوھا 
ہم نے اچھائ و برائ ملحم کردی 
بات یہی دکھی میں اس کے جمال و حسن میں کھوجاؤں تو اسکے جمال کی صورت باطن سے ظاہر میں جھلک پڑے گی یعنی اسکا چہرہ. تو باقی کیا رہ گیا؟ برائی موجود مجھ میں. مجھے خود کی تصیحح کرنی ہے. یہ بات مجھے شاہ صاحب سے سیکھنے کو ملی. وہ مبلغ نہیں تھے بلکہ وہ بابا و فقیر ...مرشد کے پاس پروٹوکول ہوتا عزت و احترام کا. بابا یا فقیر کے پاس نہیں. اس لیے میرے برے رویے کو جس حسن اخلاق سے برداشت کرتے رہے مجھے اس سے اللہ کی جھلک ملی. وہ اللہ میں اس قدر فنا تھے کہ ان کو بس پیار دینا تھا ان کو یہ پروا نہیں کرنی تھی(مخلوق)  صفت جمال سے کیا پایا جارہا ہے. وہ اپنی ذات سے عشق میں اس قدر سچے رہے کہ ان کا دھیان کسی برے رویے کے بجائے ذات سے عشق پر رہا. اس لیے انہوں نے بدل دیا دل ...مجھے احساس ہوا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے دل بدلا کرتے تھے. ان کا حلم "ان کی بردباری،  ان کی تواضع ان کے حسن اخلاق نے دنیا والوں کو مجبور کردیا وہ بدلیں مگر انہوں نے کسی سے نہیں کہا مجھ پر جان نچھاور کرو جبکہ صحابہ نے محبت ان سے ایسی کی کہ مر مٹنے کو تیار رہے. مر مٹنا یعنی فنا ہوجانا ہوتا ہی اس کے لیے ہے جو بہت بے لوث ہو جس میں اپنا پن ملے. جس کو دیکھ کے سکون ملے.