Thursday, December 3, 2020

معرفت ‏کا ‏زینہ ‏

''معرفت کا زینہ ''
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلا لفظ ''ماں '' کا ادا ہوتا ہے ۔ روزِ ازل سے یہ بات عیاں ہے کہ ماں کا لفظ بچہ کسی لغت سے نہیں لیتا ، دنیا کی کسی کتاب سے نہیں پاتا بلکہ محسوس کرکے پاتا ہے۔۔۔۔۔۔ مٹی کے خمیر کی خاصیت محبت ہے یہ محبت کا احساس جب پاتی ہے تو محبت کرنا شُروع کردیتی ہے ۔ ماں کی شخصیت کو خود سے مختلف پاتی ہے تو سوچتی یہی ''مٹی '' ہے کہ کیا ایسا ہو کہ جس کی تبدیلی سے اس میں اپنی ماں کا نقشہ آجائے ۔ تضاد ۔۔۔۔ کائنات کا حسن تضاد ہے کہ جب انسان فرق محسوس کرتا ہے تو ترقی کرتا ہے ۔ وہ فرق جو اسے تمیز سکھاتے تعمیر کی جانب رواں رکھتا ہے ۔


حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم جب غارِ حرا میں گئے تو کائنات کا سبق پڑھ کے گئے اور جب غار میں فکر کرتے رہے تو ایک نشان پاتے رہے کہ کوئی تو ہے جو یہ نظام ہستی چلا رہا ہے ۔ انتہائے غور فکر پر ابتدائے وحی شُروع ہوئی اور آپ صلی وعلیہ والہ وسلم سے کہاگیا '' پڑھو '' ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پڑھنے کی بات سے مولانا جلال دین رومی کی بات یاد آتی ہے جو علم دوست تھے اور نازاں رہا کرتے کہ ان جیسا صاحب علم کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک فقیر آیا ان کے پاس ------ان کو ایک لفظ کہا اور مولانا رومی کے دل کی دنیا بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ کتابیں جلتی رہیں اور مولانا رومی'' پڑھتے'' رہے ۔ کتاب کے پڑھے سے کیا علم حاصل ہوگا جو علم صاحب نگاہ کے پاس ہوتا ہے جس سے روح منور ہوجاتی ہے وہ علم کتاب نہیں دیتی ۔ابراہیم بن ادھم کی پڑھنا یاد آگیا جب اس بندہ ء خدا نے دنیا کی بادشاہی پر لات مار دی اور درویشی اختیار کرلی ۔۔۔۔۔کیا ایسا ہے جو کتاب سے دور دل میں ملا ؟ اس کا جواب اللہ نے قران ء پاک میں رکھا ہے

جب آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم غار ء حرا میں تھے تو پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ ان کو پڑھنے کا کہا گیا تو انکار کردیا ۔۔۔۔۔۔ حضرت جبرائیل علیہ سلام نے ان کو ہلایا تو گویا ان پر زمانے کھُل گئے ۔۔۔ماضی ۔۔۔۔ حال ۔۔۔۔۔۔۔مستقبل ۔۔۔۔۔۔ یہ تو وہ تعلیم جو رب باری تعالیٰ نے بندے کو دی اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کب اور کس وقت ملی ؟ جب سرور دو جہاں ، شاہء کونین نے دنیا پر غور کرلیا ۔۔۔۔۔۔اللہ کی بنائی دنیا سے اللہ ملتا ہے مگر جب انسان مالک سے انجان ہو تو کیا کرے جیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے غور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کہا سورج میرا خُدا ہے تو کبھی چاند کو مانا۔۔۔۔۔۔۔بالاخر کائنات کے جزو سے کُل تک کا سفر شروع ہوا اور یہی بات آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم نے کی اور اپنے خالق کی تلاش میں محو گوشہ نشینی اختیار کرتے اپنے اندر کی کائنات سے مالک دو جہاں کو پہچاننے کی تگ و دو میں رہے ۔ جب خالق کو پہچان لیا تو ان پر وحی اتری کہ اس کائنات میں موجود ہر چیز میرا جلوہ لیے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آیت ان پر نازل ہوئی اور جو زمانے ان پر کھُلے ---مکاں سے لا مکاں کا سفر۔۔۔۔۔۔۔ یہ سفر روح الامین کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی ہوگیا ہے ۔۔۔۔


قران پاک کی نشانیوں کا ذکر کسی تفسیر ، کسی کتاب کا محتاج نہیں ہے ۔بندہ ء خدا کا اور مالک دو جہاں کا ربط انہی آیات سے تو کھُلتا ہے ۔ جب وہ اقراء پڑھتا ہے تو بس پڑھا مگر کیسے پڑھا ؟ اپنے رب کے نام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور و فکر کر اپنے رب کے نام سے۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھنا ہے کتابوں کو بھی پڑھیے ، مشاہدات بھی کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔سب اچھا ہے مگر ہر چیز میں مالک کی حکمت کی آیات کو تلاشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ نوازش نہیں ہے کہ اللہ ہر بندے سے کلام کرتا ہے اور اس با عظمت کتاب سے جس کو ہم نے طاقوں میں سجا رکھا ہے اور جس کی تلاوت ہمارے لیے جنت کا زینہ ہے باوجود اس کے ہمارے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قران کی روح کو اپنی روح میں اتارا نہیں جب کلام اترا ہی نہیں تو کیا پڑھا ؟ ایسا قران پڑھنا بھی نماز جیسی ٹکر ہوگئی ۔


اس سورہ کو مزید پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان جو نماز پڑھتا ہے یعنی اللہ سے ملاقات کرتا ہے تب اس کے لوگ خوش نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان لوگوں سے علیحدہ ہوتے اپنی راہ بالاخر منوا ہی لیتا ہے ---حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم سے لے کر راہ حق کے تمام مسافروں نے ایسے ہی سفر کیا ۔۔۔۔۔ حضرت بلال رض ہوں یا عمار بن یاسر رض ۔۔۔۔۔۔۔۔تکالیف برداشت کیں اور مظالم سہے اور تلاش ءحق کی کیا عمدہ مثال ہے کہ مجوسیوں سے ایک بندہ خدا تلاش حق میں نبی آخرالزماں کے پاس پہنچا ۔جن کا نام حضرت سلمان تھا تو کوئی ابوذر رض عنہ تھے ۔جن کے قبیلے کے تمام لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسلام کی ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ خانہ کعبہ میں با بلند آواز میں کلمہ حق کہا ------کیا خوب کہنے! جناب حضرت علی رض جنہوں نے ایسے اپنے رب کو پہچانا !جیسے حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے ---یا یار غار سیدنا ابوبکر رض کی مثال ۔۔۔۔۔۔۔-مثالیں تو ہماری تاریخ میں بھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔-یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی پُل صراط بنادی گئی اس پر کامیابی سے چلتے رہے اور عشق نے ان کی روح کو وہ جلا بخشی کہ جنت و دوذخ کا فرق بھُلاتے اپنے رب کے عشق میں جلتے رہے ۔ ان کے دلوں کے سوز سے باقی عالم نے جلا پائی ۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ !

قران پاک کی پہلی سورہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔معرفت حق کی سیڑھی ہے-------تجدید کی کنجی ہے۔۔۔۔۔۔وہ وعدہ جو روح نے خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا تھا اس کو کثیف لباس کے لبادے نے دھندلادیا اور جب دل میں تڑپ پیدا ہو جائے تو سمجھ لیجئے روح جاگ رہی ہے۔ اس سوز کی انتہا عشق کی ابتدا ہے جبکہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔قران پاک کی پہلی سورہ ہمیں خالق سے عشق اور معرفت کا سبق دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنی ذات کی نفی انسان کرتا ہے تو اللہ کو پالیتا ہے اور جب اللہ کو پالیتا ہے تب وہ مخلوق سے تفریق نہیں کرتا ۔