Thursday, December 3, 2020

طبیب ‏نے ‏کہا

طبیب نے کہا کہ ابھی کیا تصویر باقی،؟  دکھ کی تحریر باقی؟  ملے پھر کوئ شافی؟  نہیں کوئ بات اضافی، بس تو مجھے، میں تجھ کو کافی.....

تقسیم شرع سے کر، طریقہ ء حال کے چشمے سے وصل جاناں سے لے .. وضو نین سے نین ملا کے کر، ادب کی زمین میں شوق کی فصل کتنی عجیب!  نین سے نین نہ ملے تو بات بنتی نہیں ..  
 
وہ ملا اور اشارے سے بتلایا 
جلاتا ہے جس نے تجھے جلایا 
نہیں کوئ در سے خالی آیا 
تجھے جام کوثر بھی  پلایا

جلن میں سوز ہجر ڈال رکھا ہے 
مرض عشق یونہی پال رکھا ہے 
بیمار جسکے ہوئے،  وہ چلا گیا 
کس آزمائش میں یہ ڈال رکھا ہے

طبیب نے کہا کہ کیا پانا ہے؟ 

کہا میں نے  فرق جاننا ہے! نقطہ ء اتصال کیا ہے؟  متصل باہم کیا ہے؟ عمل پیہم کیا ہے؟  شراب عشق، شدید رویا کیا ہے؟  تبسم کی جاودانی ہے؟  سر پہ بے سروسامانی کیا ہے؟  آفت یہ ناگہانی کیا ہے؟  دل پہ لن ترانی کیا ہے؟  مکن مکن کی ہیجانی کیا ہے؟

سوال کیا؟ جواب کیا؟  تو مری کتاب کیا ہے؟  لکھے جو میں بے خط کیا، ترا جواب کیا!  جواب پہ سوال بھی کیا ..نقطہ ء حیرت سے موج وصال پہ آہٹ انگیز فرحت بخش لہروں کی سرخی سے مہروز کی نیم شبی کا حال پوچھ، پوچھ رات کا نیلا چاند سرخ کیسے ہو؟ آفتاب پہ سرخی کیا ہے؟ شراب جاودانی کیا ہے؟  عشق سبحانی کیا ہے؟  تو میری داستان ہے،  کہانی کیا ہے. رستہ ء مجاز سے گزر جائے تو لطف کمالی کیا ہے؟  تجسیم حیرت کر،  تبسم شاہا کو تصویر کر،  سیرت کی تطہیر کر. آیتہ نورانی سے بقعہ ء نور ہے ہر آنگن

تقریب تھی خوش فہمی کی .. روشنی رکی رکی سی، قافلہ ویرانے میں، چاند لبی لبی دہنی باہنی چرخ بہ چرخ روشن منور. ....  کھلی کمال کی کتاب، محبت کی تقسیم کی روایت میں نور کو مہر کمال کی سند عطا کی گئی ... مہر کمال کی اوج تحفہ ء سید البشر کا چراغ مصطفوی ہے حرم بہ حرم جلتا ہوا،  لحن، دہن،  گگن سے نکلے نیلے پیلے سرخ دھاگے ... پوچھا جاتا ہے وصال جاناں نے حیرت میں ڈال رکھا ہے؟  کمال میں کیا ملال رکھا ہے