خودی کا مشاہدہ
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس سوچ میں گُم میری ذات اکثر اوقات باطن کا مشاہدہ کرتی ہے ۔میرا وجدان مجھے بسیطِ روحانی کے پاس لا کھڑا کرتا ہے ۔ میں یہاں پر کھڑی سوچتی رہتی ہوں کہ اس سے آگے کیا ہوگا ؟ جیسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا شخص اگلی بڑی چوٹی کا متلاشی ہوتا ہے ۔عشق کی مثال بھی ایسی ہے ، یہ تن من سلگاتی ہے ۔ تن کے سُلگنا مٹی کو روشن کر دیتا ہے ۔ تن ----مٹی ----مٹی کا کام کیا ہے ؟ مٹی کا کام مٹی ہونا ہے ۔جس نے سورج بننا ہے اس نے روشنی دینی ہے اور جس نے چاند بننا ہے اُس نے روشنی لینی ہے ۔ سورج قطب نما ہے ہے جو سمت بتاتا ہے ۔ چاند کا کام کیا ہے ؟ سمت لینا ہے ۔ روح اللہ کا نور ہے اور اس کا جزو ضمیر ہے ۔ ضمیر سورج ہے جو سمت دیتا ہے جبکہ نفس چاند کی سی مشابہت رکھتا ہے جس کا کام سمت لینا ہے ۔
ایک عالم مجھ میں بسا ہے
میں خود میں ایک عالم ہوں
آگہی کے در مجھ میں وا ہوتے جا رہے ہیں ۔ کائنات کا سب سے بڑا دُکھ آگہی ہے جس جس کو ملتی ہے وہ روشنی پاتا ہے مگر اس کی روح بے قرار ہوجاتی ہے ۔ روح جو ہجرت میں ہوتی ہے وصال کے لیے تڑپنے لگتی ہے ۔ اس کی آرزو ہوتی ہے کسی طرح وصال ہو جائے ۔ یار کے روبرو ہوتے دیدار ہوجائے ۔ ہر نفس آئینہ ہے یعنی کہ ہر نفس خود میں آفتاب ہے مگر کون جانے اس حقیقت کو اور جو جان لے محبت کا احساس کیا ہے وہ کبھی ہجرت پر آمادہ نہیں ہوتا مگر اس کی اساس ہجرت ٹھیری ۔۔۔! درد کی ٹیس کیا ہوتی ہے ۔۔! دل نکلے تو مزہ آتا ہے مگر کچھ بھی تو اختیار میں نہیں ہوتا اور اگر اختیار میں ہوتا بھی تو کیا ہوتا ۔۔ انسان کا نام جھک جانے کا اور مٹ جانے کا۔۔۔!مٹنا چاہیں تو کیسے ۔۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر مٹ ہی جائیں تو اچھا ہے ۔۔
وصلِ سوزِ موج نے دیوانہ کیا
آشیانہ شہرِ دل کا ویرانہ کیا
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے اب حال سے بیگانہ کیا
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
اُلجھنوں نے بے طرح دیوانہ کیا
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے ذات سے بیگانہ کیا
میرے گمان کی سرحدیں عہد الست کے عشق کے ڈوبی سازِ ہستی کی تجدید کا نغمہ چھیڑنے کی خواہش میں بھٹک رہی ہیں ۔ وہ سرمدی نغمہ جو تن کو میٹھے سُروں سے سراب کرتا الوہی شراب میں مست کرتا ہے ۔
لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا
ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا
ساز کی لے پہ سر دھنتی رہی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا
چھیڑ ! اب پھر سے ،اے مطرب! وہی دھن تُو۔۔۔!
اب کہ نغمہ بنا ہے درد صدیوں کا
گیت میرے سنیں گے لوگ صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا
ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!
میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ سا بنا ہے درد صدیوں کا
میری ہی دُھن پہ محوِ رقص ہے کوئی ۔۔؟
ساز کس کا بنا ہے درد صدیوں کا ؟
عہد تجدید کو یاد کرنے سے میری آنکھیں نم ہیں اور دل میں ہجرت کے غم میں گرفتار ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے دل میں موجود سبھی صنم خانوں کو پاش پاش کردوں ۔ میں نے جب ان کو ختم کیا ہے تب مجھے عشق الہی کی طرف جانے کا زینہ میسر ہوا ۔ میرے سارے درد نشاطِ کیف میں بدل گئے ۔ حق کی سمجھ آگئی کہ نور تو دل میں بسا ہے ۔ میرے دل کیا خود کو طواف شروع کردوں کہ کعبہ تو میرے دل میں ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سجدہ ِ حق کیسے ادا کروں ۔ میری خواہش ہوئی کہ روح جسم سے نکلے اور باطن میں موجود کعبے کا سجدہ کرے کہ اصل سجدہ تو وہ ہے ۔ اس طرح کی خالی نمازیں پڑھنے سے کیا ملتا ہے ۔۔۔
روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ
نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کی عظمت پر زمیں کی پستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کی وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتی یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا بس نور ہے گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ
جب میں نے سورۃ الشمس کا مطالعہ کیا ہے تو ادراک کی راہیں مجھ پر کھلیں کہ قران پاک کی آیات ہر انسان کے لیے کھلی نشانیاں ہیں اور وہ ان میں اللہ کو خود سے کلام پاتا ہے یہیں پر انسان کا اپنی ذات سے مشاہدہ ہوتے ہے اور وہ خود میں اپنے اللہ کا جلوہ پا لیتا ہے ۔ واقعی سمجھنے والوں کے لیے اس میں کھول کھول کے نشانیاں بتائیں گئیں ۔
سورہ الشمس کی آیات میرے سامنے کھلی ہوئی ہوں اور میں سوچ رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھائیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ—- الشمس—- کا موضوع قانون جزا و سزا کے حوالے سے قریش کے سرداروں کو طغیان اور سرکشی کے اُس رویے پر تنبیہ ہے جو دعوت حق کے مقابلے میں وہ اختیار کیے ہوئے تھے۔
سورج کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ پوری تابانی سے روشن ہو
چاند کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ سورج کے گرد مداروی حرکت میں ہو
اور پھر۔۔۔۔قسم نفس کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو الہام کی قوت دی تاکہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکے
سورج ، چاند ، دن اور رات میں ہر چیز کی ہیئت اور ان کی بناوٹ ، مزاج اور اس کائنات پر ان کے اثرات میں بڑا فرق ہے ۔ جس کے سبب دنیا میں اضداد ایک رزم گاہ معلوم ہوتی ہے لیکن مدبر کائنات نے اسی تضاد کو اس طرح سے عالمِ دو جہاں میں فٹ کیا ہے کہ مجال نہیں کہ کوئی شے دائرے سے نکل ہائے ۔ نہ سورج چاند کی حدود میں نہ چاند سورج کی حدود میں مداخلت کرتا ہے نہ دن کی مجال یہ کہ وہ وقت سے پہلے نکلے اور نا رات اپنے وقت معین سے پہلے ظاہر ہوسکتی ہے ۔ کائنات کے یہ سبھی مظاہر اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
’لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ‘ (یٰسٓ ۳۶: ۴۰)
(نہ سورج کے لیے روا کہ وہ چاند کو جا لے اور نہ رات ہی دن سے سبقت کرنے والی بن سکتی)۔
ان اضداد کی یہ باہمی سازگاری ہی ہے جس پر اس کائنات کے بقاء کا انحصار ہے۔ اگر اس سازگاری و فرماں برداری کے بجائے ان کے اندر طغیان و سرکشی پیدا ہو جائے تو یہ عالم چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔ اس وجہ سے خالق کائنات نے ان کو ان کے حدود کا پابند کر رکھا ہے اور یہ اپنے وجود سے زمین پر بسنے والوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ وہ بھی خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کریں۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں گے تو زمین میں فساد برپا کریں گے اور زمین کا خداوند ان لوگوں کو گوارا نہیں کرے گا جو اس کے ملک میں فساد برپا کریں گے۔ ان سب کا ایک مدار میں حرکت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک و خدا ایک ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب بھی قسمیں کھاتے ہیں ان قسموں میں دیے گئے احکامات کو حکمت و استدالال سے سمجھاتے ہیں ۔
ان سب کی قسمیں کھانے کے بعد آخری قسم جو کھائی ہے وہ انسانی نفس کی جس کو ضمیر کی طاقت دی یا نفس دینِ فطرت پر پیدا ہوا ۔ اگر وہ ان نشانیوں پر غور کرتے ، ضمیر کے بتائے گئے راستے پر چلتے خود کو اچھا رکھے تو اس کے لیے اجر مگر وہ اپنی نفسانی خواہشات میں پڑا رہے تو اس کا حال بھی وہی جو قومِ ثمود کے ساتھ اللہ نے معاملہ کیا جب اونٹنی کے بارے میں اللہ کے پیامبر کا پیغام جھٹلا دیا گیا ۔ ایسے لوگوں کو عبرت کے لیے قصے سنائے گئے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ساری قسمیں اشرف مخلوق کو سمجھانے کے لیے کھائیں ۔ ان قسموں میں تضاد ایک پہلو ہے اور درحقیقت تضاد ہی کائنات کا حسن ہے ۔ اس سورہ کا نام شمس ہے جس میں روشنی کا منبع یا کائنات کو چلانے والی ہستی سورج ہے ۔ اس استدالال کو استعمال کرتے ہوئے انسانی روح کی مثال بھی بصورت سورج ہے اور انسان خود میں کائنات ہے ۔ انسانی جسم کی نمود زمیں سے جبکہ اس کی روح کا امر آسمانوں پر کیا گیا ہے ۔ روح امر ربی ہے اور اس نور کا کام چمکنا ہے ۔
﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾
روح کو جب جسم فانی میں داخل کیا تو اس کو ضمیر کی قوت بخشی تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق جان سکے ۔انسانی روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے ۔ روح نور کی تجلی لیے ہوئے ہے اور جب جسد خاکی میں ڈالی گئی تو لطافت پر کثافت نے اس کو دھندالا دیا ۔۔اس کو روشن انسانی ضمیر کرسکتا ہے جو عقلی استدالا ل سے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھاتا ہے ۔انسانی نفس شر و خیر کا آمیزہ ہے اور روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے جو روح کو روشن کرتا ہے اس ضمیر کے گرد اگر انسانی نفس مداروی حرکت میں رہے تو اس کی ہستی سورج کی سی ہوجاتی ہے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہے ۔ نفس اور ضمیر کی آپس میں کشمکس رہتی ہے اور جو لوگ نفس کی تسخیری میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ خود میں سورج ہوتے ہیں ۔ میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مثال سورج کی سی ہے جس سے پوری کائنات منور ہے ۔ ان کے بعد اصحاب و اولیاء جن کی ہستیاں سورج کی مانند باقی کائنات کو منور کرتی رہیں ۔ وہ رہنما ہوئے اور لوگ ان کی پیروی کرتے رہے جیسے تمام اجرام فلکی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ہر نفس انسانی خود میں سورج ہے اگر وہ خودی میں جھانکتے ہوئے اپنی نفی کرتے ہوئے اللہ کی رضا پر چلتے لوگوں کی رہنمائی کرے ۔ میں نے اللہ کی روشن آیت سے حکم کو پالیا ہے اور اگر اس پر عمل کروں تو گویا میں نے طاعتِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یعنی کے اللہ کی اطاعت کی ۔ اپنی خودی میں مجھے اپنا رب ، اپنے رب کی ربانیت کا مشاہدہ ہوا ۔