Thursday, December 3, 2020

غزل ‏اورشکیب ‏

غزل اور شکیب

بادِ صبا کی نرم نرم بوندیں پھُوار بن کے دونوں کے اوپر برس رہی تھیں اور وہ  دونوں جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھے تھے۔یہ پتھر دوسرے بڑے پتھروں سے متصل ایک پہاڑی سے جُڑا ہوا تھا۔ پہاڑیوں نے جھیل کو گھیرے میں لے کر اس کی نیلاہٹ میں اِضافہ کر دیا تھا۔ گُلاب کی خوشبو چاروں طرف مہک رہی تھی تو دوسری طرف موتیا کے پھول کائنات کے  حُسن میں اضافہ کر رہے تھے ۔پتھر پر بیٹھے غزل نے نیلے پانی کے اندر جھانکا ، ایک دم واپس اوپر کو ہوگئی ۔۔ ڈری گھبرائی--- غزل سے شکیب نے پوچھا : کیا ہوا؟

غزل :میں پانی میں اپنا عکس نہیں دیکھ پائی  مگر --- ایک پل کو توقف کیا۔۔۔!
'' پانی میں ارتعاش پیدا ہوگیا  اور میرا عکس ان لہروں میں کھو گیا ہے ''
اٗس نے غزل کی بات سُن کے ایک قہقہ لگایا اور بولا:
شکیب:''گویا تم پتھر ہو! پانی میں پھینکا اور لہروں نے شور مچا کے رقص شروع کردیا ! کمال کرتی ہو تُم۔۔۔!!!اچھا ایک کام کرتے ہیں۔۔آج مجھے شامِ غزل میں جانا ہے، تمہیں بھی ساتھ لے چلتا ہوں۔۔! چلو گی ؟

غزل نے حامی بھرلی اور جھیل کے پاس بیٹھ کر پانی کی گہرائی ماپنے لگی ۔۔۔۔!!! جب اپنا چہرہ پانی کے قریب کرتی ، پانی کی لہریں رقص شروع کردیتیں۔۔ ۔ اس کو نا جانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی انگلی پانی میں ڈال دی اور پانی کی تمام ساکن موجوں میں سکوت کا انجماد یک لخت ٹوٹا اور تحریک کے طوفان نے بگولوں کی صورت سمندر کو گھیرلیا۔۔۔۔ پانی کے شور نے ،طوفانی لہروں نے عین مرکز پر اکٹھے ہوتے آبشار کی سی صورت اختیار کرلی اور آبشار کی مانند گھومتے تمام لہروں کے لیے رہنما بن گئ ۔۔۔ غزل یہ تمام منظر یک ٹک دیکھے جارہی تھی کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا : '' یا حیرت''  اسی حیرت میں پلٹ کے شکیب کو دیکھا مگر وہ انجان تماشائی بنا بیٹھا تھا جیسے اس کے لیے یہ سب نیا نہ ہو !

 غزل :تُم نے پانی کی لہروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا ؟ 
 شکیب :نہیں! غزل کیا ہوگیا ہے ؟ 
غزل : جو میں محسوس کر رہی ہوں اسے تم کیوں نہیں پاسکے ؟ جو میں دیکھ رہی ہوں وہ تم سے اوجھل کیسے ہوسکتا ہے ؟
شکیب: ہر انسان اپنے احساسات کا مالک ہوتا ہے ! یہ غزلیں ! یہ غزال جو وجود میں بیٹھا ہے ہمیشہ نئے انوکھے تجربات سے نوازتا ہے !
 غزل :مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ غزل کیا ہوتی ہے ! سمندر کے سکوت میں لہروں کی موسیقی اور ان کا آہنگ ! اس آہنگ کے بننے میں پل سے کم وقت لگتا ہے مگر درد کو سموچنے کے لیے صدی جتنا طویل وقت ۔۔۔شکیب اس کی باتیں خامشی سے سنتا کبھی سمندر میں جھانکتا تو کبھی غزل کے چہرے پر سمندر کے بنتے بگڑتے نقوش دیکھتا ! پھر ایک پل کے توقف کے بعد سمندر میں جھانکا تو اپنا عکس دیکھ کے مطمئن سا ہوگیا 

شکیب : مجھے تو اپنا عکس نظر آرہا ہے ! میں وہ تصویر ہوں جس کا مصور شاہکار بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔! چلو ۔۔! شام چھارہی ہے اور محفلِ غزل شُروع ہونے کو ہے !  

شکیب نے غزل کا ہاتھ تھاما اور طویل راہداریوں ، میدانوں ، وسیع سمندروں سے ہوتے زمان و مکان کی قید سے دور محفلِ غزل میں پُہنچ گئے ۔ محفلِ غزل میں سازندے ایک طرف ہوکے بیٹھے ساز سے مختلف دھنیں ترتیب دے رہے تھے ، جبکہ اکا دکا لوگ رُباب سے کھیلنے میں مصروف میں تھے ۔۔۔ غزل کے لیے یہ بہت انوکھی دُنیا تھی جہاں پر سکوت نے قبضہ جما رکھا تھا مگر ہر شے بولتی دکھائی دے رہی تھی ! ایسے جیسے تصاویر بولتی ہوں ! گائک بھی خاموش اور سامعین بھی مگر سبھی ازل کے گیت کو بہت دھیان سے سن رہے تھے ۔ جس طرح بن پیے بندہ پیاسا نہیں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح بن سُنے بندہ اس گیت کو پہچان نہیں سکتا !سب پر  ایک سحر سا  طاری تھا ! جانے کس کی فسوں کاری کا کرشمہ تھا کہ تمام تصاویر میں تحریک شروع ہوگئی ۔ غزل سحرزدہ سی مدہوشی کے عالم میں فرشی نشت پر بیٹھی تھی ، سراسیمگی میں شکیب کا ہاتھ دبوچ لیا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے اور خود غزل نے ازل کے گیت پر رقص شروع کردیا 

نظر نے نظر سے ملاقات کرلی
رہے دونوں خاموش اور بات کرلی
زمانے میں اس نے بڑی بات کر لی
خود اپنے سے جس نے ملاقات کرلی

انسان کی خود سے مُلاقات ہوگئی گویا کہ غزل کی تکمیل ہوگئی ہو ۔۔۔۔! ذات کی ملاقات بڑا تڑپاتی ہے ، روح جسم سے باہر نکل جاتی ہے ، جسم کی قیود میں زمانہ قید رہ بھی کیسے سکتا ہے ۔ اب کہ غزل نے ہاتھ چھڑانا چاہا کہ بڑی بے چین ہو کر اٹھی ۔ یوں لگا کہ شکیب اس کی ہاتھ سے دوڑی کی طرح بندھا ہے ، جیسے ہی اس کا رقص شروع ہوا، شکیب ایک کٹھ پتلی کی طرح ساتھ رقص کرتا رہا، دونوں بہت خوبصورت لگ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لیے لازم و ملزوم تھے ۔مگر غزل کی بات اور تھی ! شاید اس نے فنا ہونا تھا اور دوسرے نے باقی رہنا ہے ۔ ایک نے  زہر کا پیالہ پی کے عالمِ فانی کی طرف جانا ہے اور دوسرے نے آبِ حیات پی رکھا ہے ۔دونوں رقص میں تھے اور جام دونوں پی چکے تھے مگر پیمانہ مختلف تھا مگر ساقی ایک  اور خزانہ بھی ایک اور  عطا کا حساب مختلف ! عطا کے بعد دونوں مست و رنجور تھے ۔۔۔!  اس عطا پر دھمال ڈالنے والوں میں انہوں نے بھی حصہ لیا مگر ہوش نے مدہوشی لے لی ! اس عالم میں غزل نے اُس کا ہاتھ چُھڑانا چاہا تو اس کو ایک صدا سنائی دی !

''سنو ! تم مجھ سے چاہ کر بھی ہاتھ نہیں چھڑا سکتی ! میں تب بھی تھا ،  جب تم نہیں تھی اور جب تم نہیں ہوگی ، تب بھی میں رہوں گا ۔۔!میں ازل سے ابد تک کا ساتھ ہوں ۔۔ میں مکان کی قید سے آزاد ہوں ۔۔۔۔ !!! تمھارا نام مجھ سے جڑا رہے گا اور اس نام کی وجہ سے تمھارا نام امر ہوگا !!!

غزل نے  اس کا مضبوطی سے تھام لیا جیسے سکندر کو خضر کے کھونے کا غم ہو ! اسی اضطرار میں اس کی گرفت اس کے ہاتھوں پر مضبوط ہوگئی اور بے ساختگی میں کہے دیا 

 غزل :'' کون ہو تم ؟ تم شکیب نہیں ہو!! تم خضر ہو ۔۔۔!! زہر کے پیالے کا تریاق نہیں ہوتا ہے ، میں اس جہاں فانی سے چلی جاؤں گی اور تم رہ جاؤ گے ۔ افسوس! محبت کچھ نہیں ہوتی ، یہ صرف ایک قید ہوتی ہے ، جس طرح تم میرے اندر قید ہوتے  امرت کا پیالہ پی چکے ہو اور میں تم سے باہر رہتے ہوئے بھی زہر کا اثر زائل نہیں کر سکتی ۔۔آہ ! اس سے برا کیا ہوگا میرے لیے۔۔۔!

رات کی سیاہی سحر کے طلوع ہونے کا اشارہ رے رہی تھی ۔ارواح کے رقص دائروی سے ہوتے ہوئے زائروی ہوگئے ،اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے انہوں نے شاید  اپنا اصل پالیا جاتا ہے ، یہی کچھ اس رقصِ بسمل میں ہوا۔۔ دونوں تب تک رقص کرتے رہے جب تک کہ دونوں کا آہنگ ، رقص کی تال ، ایک سی نہ ہوگئی اور جب دونوں ایک ہوئے تو ہوش ختم ہوگیا ، کائنات تھم گئی ۔

زندگی نے دوبارہ آنکھ کھولی تو وہ دونوں اسی وادی میں پتھر پر بیٹھے تھے ، جہاں سے وہ کوچ کیے تھے ۔سورج نے چاند کو اپنی اوٹ میں چھُپا کے زمین کو تنہا کردیا۔۔۔ پتھر پر بیٹھے بیٹھے غزل نے آنکھیں بند کیں اور  آنکھ بند کرتے ہی'' عکس اور منظر ''پسِ عکس بدل گیا۔۔۔۔ ! جھیل ایک صحرا میں بدل چکی تھے ۔ دائروی بگولے چار سو گھومتے ہوئے غزل کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے ۔ اچانک آندھی آئی اور وہ غائب ہوگئی ۔۔۔! شکیب غزل کے پیچھے بھاگتا ہوا پتھرا پر بیٹھا اور خود کو آنکھیں بند کرنے پر مجبور پایا۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا ۔۔! اسے لگا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا ، وہاں پر غزل کھڑی ہے اور وہ غزل کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ جھکڑوں کی گرج دار آواز میں وُہ غائب ہوچکا تھا۔۔جبکہ غزل کھڑی مسکرا رہی تھی ۔