میں '' تک کا سفر-- 2
انسان کی پہچان اس کی نفس سے شروع ہوتی ہے اور جب وہ خود کو پہچان لیتا ہے تب رب تعالیٰ کی پہچان کا سفر شُروع ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہوتا ہے پہچان کیسے کی جائے ؟ اس پہچان کا سفر '' لا الہ سے اثبات حق --- یعنی الا اللہ --- کی طرف لے جاتا ہے تب سمجھ آتی ہے کہ انسان نے تو اتنے صنم خانے بنارکھے ہیں اور اللہ کو پُکارتا ہے ۔۔۔اللہ سائیں اپنی پُکار کی لاج رکھتے نواز تو دیتا ہے مگر امید رکھتا ہے اس کی خلق اس کو ضرور پہچانے گی ۔ مجھ سیہ کار کے ساتھ کچھ ایسا معاملہ درپیش ہوا ہے کہ میں نے خُدا سے سوال کیے اور سوال بھی مشرکانہ ---- بھلا یہ بھی کوئی سوال تھا کہ ''اے خدا کہاں ہے تو ؟ '' میں نے اللہ سے پوچھا تو دل کے صنم خانے سے آواز نکلی ۔۔۔
''نور ۔۔۔۔۔۔۔ زبانی کلمہ لا الہ الا اللہ کا ہر کوئی پڑھتا ہے --- کبھی اس کا ذکر کیا ہے ؟ کبھی اس پر فکر کی ہے ؟ اگر فکر کرتی تو سوچتی ہی نا کہ اللہ کدھر ہے۔۔۔ اللہ جدھر تو دیکھے وہ تو وہاں ہے ۔۔۔''
اللہ سے سوال کرنے کی عادت بڑی رہی ہے حالانکہ سوال نہ کی حکمت ''شکوہ اور سوال '' کی صورت سمجھائی ہے مگر میں نے پھر بھی اس سے سوال کیا اور پھر پوچھا کہ '' اے خدا کہاں ہے تو '' اب سوچوں تو سمجھ آتی ہے کہ جستجو کرنا بھی انسان کے خمیر میں لکھا ہے اور وہ سوال نہ کرے تو رب کو پہچانے کیسے اور جب پہچان لے تو سوال نہ کرے بلکہ ہر چیز کو اس کی حکمتوں سے تعبیر کیا کرے ۔
جب میں نے اللہ کی صدا سنی تو بڑی شرم آئی تو سوچا اس کلمہ کی روح کیا ہوگی ۔۔۔۔۔ '' لا '' ہے کیا ۔۔۔ بس ایک ڈرامہ یا د آگیا جس میں عشق کی مسافر ذات و نسب کی تفریق کا کلمہ پڑھتی ہے ۔۔۔
لا حسب ۔۔۔لا نسب
لا تکبر ۔۔۔ لا غرور
لا---------------لا
میں نے اس ڈرامے پر کبھی غور نہیں کیا تھا مگر یہ کلمہ دل میں جڑ گیا ہے اب سوچا میں نے کتنے بت بنائے ہیں – کچھ بُت معاشرے سے مستعار لیے ہیں تو کچھ بُت میں نے اپنی انا کے ہاتھوں بنائے ہیں اور میں پھر بھی سوچتی ہوں کہ میں نے لا الہ الا اللہ پڑھا --- اللہ نے کہا ہے کہ کلمہ عفو کی سفارت بنے گا مگر کیسے بنے گا کسی نے سوچا ہی نہیں نا!
سید----علوی ---- گیلانی --- شیخ ---آرائیں ---- جٹ –
چشتی ---قادری ---صابری ---- نقش بندی ---- سہروردی
کافر ---مسلمان ---عیسائی --- یہودی ---ہندو
امیری ---دولت --- طاقت --- اولاد--- عورت
میں ---میری ذات ---انا---خود پسندی ۔۔۔ برتری ---علمیت—ذہانت ۔۔۔ لیاقیت
اب میرے پاس خداؤں کی لسٹ ہے جن کو میں شمار کرتی جاؤں تو لسٹ لا محدود ہوجائے گی اور پھر اتنے صنم خانوں کے ہوتے ہوئے بھی میں سوچوں میں نے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھ لیا ----دوستو ! کیا میں نے واقعی ہی اللہ کو الہ مانا ہے ؟ کیا میں نے واقعی ہی اس کی پرستش کی ہے ؟
میرے ایک سر ہوتے تھے فزکس کے ان کا نام خادم حسین سیال تھا ----ان کی باتیں بڑی مدبرانہ ہوتی تھیں --- نماز کی بات چلی تو میں نے تنگ نظری سے کہ دیا کہ وہ مسلمان نہیں جس نے نماز نہیں پڑھی تو کہا کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں وہ تو ''ٹکر '' ہوتی ہے اور وہ مالک دیکھو ہماری ''ٹکریں'' بھی قبول فرماتا ہے۔ تب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ میرے استاد نے نماز کو ٹکر کیوں کہا---میری نظر میں حجاب مجھے تنگ نظر اور عدم برداشت بناتا گیا ہے اور آج جب حجاب نہیں ہے تو میں پوچھتی ہوں میں کون ہوں ؟
میں عشق ہوں جس کا کام انسان سے محبت کرنا ہے
میں شعلہ ہوں جس کا کام روشنی دینا ہے
میں صبا کا نرم جھونکا ہے جس کا کام لطافت دینا ہے
میں سورج کی مانند چمکتی ہوں تاکہ اجالا پھیلے
میں سمندر کی مانند گہری ہوں تاکہ عیاں کو نہاں کردوں
میں زمین ہوں جس نے اشجار کی آبیاری کرنی ہے
میں چاند ہوں جس نے چاندنی کی ملاہت سے فرحت دینی ہے
مگر ------------------
اس سب میں ''میں '' تو نہیں ہوں میں نے تو کہا لا الہ ----------------جب میں نے اپنی نفی کردی تو میں مجھ میں سچی ذات کا بسیرا ہوگیا ----------یہی سچ کا سفر ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اس سے بڑی حقیقت کائنات میں کوئی نہیں ۔
نعرہ حق کا لگاتی رہوں گی
نفیِ ذات سے تن سجاتی رہوں گی
آخری تدوین: مارچ 28, 2016