Thursday, December 3, 2020

صوفی ‏شاعر ‏- ‏سرمد

اکبر کے جاری کردہ دینِ الہی اور شاہ جہاں کی انگریز قوم کو تجارت کی اِجازت عمومی طور پر رعایا  بالخصوص ہندی درباری امرء کے لیے بے حد ناپسندیدہ ٹھہری۔ اس اِجازت کے بعد انگریز قوم ایک تجارتی منڈی قائم  کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ یونہی ایک دن یہ  تاجر  تجارت کی غرض سے ہندوستان تشریف لایا ۔  تاریخ  نے اُس شخص کو سرمد کے نام سے مشہور کیا۔

''سرمد'' جو کہ ایک  تاجر کا ''تخلص''  تھا ،وہ  ایشیا میں تِجارت کی غرض سے  شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں تشریف لایا ۔ اپنے سفر کے دوران جب وہ ٹھٹھہ پُہنچا تو ایک لڑکی کے عشق میں گِرفتار ہوگیا ۔اس پر جذب کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ برہنگی  بھی اس جذب کا برہم نہ رکھ پائی ۔

اس کے قتل کے بارے بہت سے حقائق جو شاید ادب کی دُنیا میں ''تجسس '' کے حجاب میں چھپے ہوئے ہیں ۔ایک واقعہ کچھ اسطرح سے ہے ۔سرمد ایک مسجد میں نماز ادا کررہا تھا ۔ وہاں پر مسجد کا امام خشوع خضوع سے دعا مانگنے میں مصروف تھا ۔

سرمد نے کہا : امام کا خدا میرے پیروں تلے ہے

بادشاہِ وقت  کا مصاحب وہاں پر موجود تھا ،سرمد کو بادشاہ کے پاس جانا پڑا۔اس کے ساتھ امام سے پوچھا 'تم کیا دُعا مانگ رہے تھے'

اس نے جواب دیا: میری بیٹی کی شادی کی عمر ہوگئی ہے ،اس کے لیے جہیز کی انتظام ہوجانے کی دُعا مانگ رہا تھا۔

سرمدنے کہا: میں  جس جگہ کھڑاہوں، اس جگہ خزانہ ہے

بادشاہ وقت اورنگ زیب کے کھدائی کروانے پر وہاں سے بیش قیمت سونے کے جواہرات نمودار ہوئے 

سرمد نے کہا: میں نے کہا تھا کہ اس کا خدا میرے  پیروں تلے ہے 

مورخین کہتے ہیں کہ یہ حادثہ 1661 ،--1072 ہجری میں پیش آیا۔اس کے قتل /شہادت کی وجہ اس کی رباعی بتائی جاتی ہے جس میں اُس نے دعوی کیا تھا کہ افلاک محمدﷺ کے سینے میں سما گئے جبکہ آپ افلاک پر نہیں گئے تھے ۔(واقعہ معراج)۔

ہر کس کہ سر حقیقتش سر باورشد

او پھن ترا  از پھناور شد

ملا گوید کہ برفلک احمدﷺ شد

سرمد گوید بر فلک احمدﷺ شد 

تذکرہ شعراء --- میں سرمد کاشانی کی شہادت کا ذکر ہے ، اس وقت اسکی کی عُمر ستر برس کے قریب تھی اور 1660 سے 1666 کے درمیانی عرصے میں اس کو دار پر چڑھایا گیا ۔ روایت میں ہے کہ سرمد کے دار پر چڑھنے کے بعد شعراء نے تلوار اور دار کی تراکیب کو اشعار میں زیادہ استعمال کرنا شُروع کردیا تھا۔موت کے بعد سرمد کو حلاج ثانی کے نام   سے جانا جانے لگا۔سرمد کو مراۃ الخیال میں شیر خان لودھی نے،مجمع النفع میں سراج الدین علی خان نے ریاض العارفین میں ریاض علی قلی خان نے ذکر کیا ہے ۔لکھ پت خان ریاضِ مشاعرہ اور دبستان مذاہب کو مستند کتب میں شمار کرتا ہے۔اکثریت کے نزدیک سرمد ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرلیا۔سرمد کی 300 کے قریب رباعیاں فارسی میں محفوظ کرلی گئیں ۔ہیں ۔ان کے اعداد و شمار 299  سے  334 تک  کا فرق اکثر کتب میں پایا جاتا ہے ۔سرمد کے قطعات ، رباعیاں اور چند غزلیں یہاں پر پیش کی جارہی ہیں   

یورپ سے سفر کرتے فارس کی زمین پر قدم رکھا اور یہیں پر فارسی ، عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنا کاروبار ٹھٹھہ کی سرزمین پر دریائے سندھ کے کنارے پر قائم کیا ،جہاں سے اس کے کاروبار کو عروج حاصل ہوا۔اپنے اس سفر کے دوران ایک ہندو لڑکے ابھے جیت کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ٹھٹھہ میں محفلِ موسیقی کے انعقاد  کے دوران ابھے جیت کی آواز سُن ۔ اس کی آواز کے سُروں نے اس کے دل کے ساز کے سُروں کو وہ جِلا دی کہ سرمد ایک طرف شعر کہتا ، دوسری طرف ابھے جیت اسی عرفانی شاعری کو گاتا ، اور سرمد اسکی آواز میں  دھمال ڈالتا ۔ اسی کیف و مستی میں اُس نے ابھے جیت کو "خدا" کہنا شروع کردیا ،سرمد کو اس میں اپنے خُدا کا جلوہ نظر آتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا دنیا کے ہر مظہر میں دکھتا ہے اور اس کو 

ابھے میں خدا دکھتا ہے۔اس کی یہ رُباعی اس کے جذبات کی ترجمان ہے

عاشق کون ہے؟ محبوب؟ بُت؟بُت تراش یا تم؟

کعبے کا محبوب کیا ہے؟ مسجد؟ مندر؟

اس باغ میں آؤ! رنگوں کا امتزاج دیکھو!

اس سب میں کون عاشق ،معشوق؟ کون پھول ،کانٹا؟

*****

سرمد بہ جھان بسی نکو نام شادی

از مذہب کفر اسلام شدی

آخر چہ خطا دیدی ز اللہ و رسول

برگشتہ مرید لچھمن و رام شدی

او سرمد! تم نے ایک عظیم جنگ لرلی ۔تم کفر سے اسلام کو قبول کرچکے ہو۔اللہ اور اس کے رسولؐ میں کیا غلط تھا جو تم 
لچھمن اور رام کے پیروکار تھے ؟

گڈری شاہ سلسلہ جو چشتیہ سلسلہ کی ایک شاخ ہے سرمد کو ولی میں شمار کرتی ہے۔اس سلسلے کی نسبت حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی سے بھی ملتی ہے۔ سرمد نے حقیقت کو مجاز کے پردے میں عیاں کیا کہ حقیقت میں شاعری زندگی کی ترجمان ، علامتی انداز میں زندگی کی حقیقت کو فاش کرتی ہے ۔ صوفی شاعری میں حقیقت اور مجاز کے تعلق کو بطریق احسن بیان کیا جاتا ہے ۔اس لیے ہر استعارا کسی نہ کسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے سرمد کی شاعری زندگی اور موت کی حقیقت کے اسرار کو فاش کرتی ہے ۔سرمد کاشانی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایران میں پیدا ہوا جبکہ اس کےوالدین یہودی تھے اور جبکہ اس کے والدین آرمینا سے آئے تھے 1560 میں شاہ عباس کے دورِ حکومت میں پیدا ہوا۔جبکہ اس کے والدین کے آباؤاجداد کا تعلق یورپیوں سے جوڑا جاتا ہے ۔سرمد نے سب سے پہلے توریت پڑھی اور ربی کہلوایا گیا ۔اس نے مذہب کا مطالعہ ایرانی شاعر حافظ شیراز الدین کے ساتھ مل کے کیا۔اس مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔سرمد کو جنگلوں کا ہرمٹ بھی کہاجاتا ہے ۔ٹھٹھہ کی زمین پر قدم رکھتے جگہ جگہ گھومتے حیدرآباد دکن کی زمین پر قیام کیا۔اسوقت دکن پر اورنگ زیب حاکم تھا۔ اس کے بعد دہلی پُہنچا۔

دہلی میں آتے وہ بہت مشہور ہوگیا کیونکہ وہ مستقبل کے واقعات کے متعلق پیشن گوئیاں کیا کرتا ،جو کے سچ ہوجاتی۔یوں عقیدت مندوں کا اس کے گرد تانتا بندھنے لگ گیا۔دارا کو کوئی مذہب نہیں تھا ،ہندوؤں میں ہندوؤں کی ، انگریزوں میں انگریزوں کی ، یہودیوں میں یہودیوں اور محمدیوں ﷺ کے مذہبی تعلیمات کی بیک وقت تعریف کرتا جسکی وجہ سے اورنگ زیب اسے کافر کہا تھا۔ دارا کو ہر ایک میں "خدا'' نظر آتا  ،ہمہ اوست کے عقیدے کو ماننے والا تھا ۔ایک دن سرمد مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اورنگ زیب کا وہاں سے گزر ہوا۔اس نے کہا خود کو کمبل سے ڈھانپو، سرمد نے بادشاہ سے کمبل مانگا۔ جب اورنگ زیب نے کمبل اسے دیا جس میں اسے خوفناک منظر نظر آیا۔اس کے تمام بھائیوں کا سر علیحدہ ہوا تھا ، جبکہ رشتے دار خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے۔سرمد کی دارا شکوہ کے بارے میں پیشن گوئی درست ثابت نہ ہوئی اور تخت نشینی کی جنگ وہ نہ جیت سکا ، نہ ہی مستقبل کا بادشاہ بن سکا۔

بافکر و خیال کس نباشدکارم

در طریق غزل حافظ دارم

اما بہ رباعی ام مرید خیام

نی جرعہ کش، بادہ بسیارم 

 سرمد کی برہنگی جو اس کی عشق میں ناکامی کے باعث تھی ، اس کی تشنگی ابھے جیت کے مدھر سنگیت نے  پر کردی ۔اس کی برہنگی پر ابھے جیت کے والدین نے دونوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی مگر مرغِ بسمل کی مانند تڑپتے ابھے جیت کی حالت زار پر رحم کھاتے سرمد سے تعلق رکھنے کی اجازت دے دی۔قریب دس سال یہاں رہنے کے بعد سرمد ابھے جیت کے ساتھ لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس عقیدت مندوں کا اس کے گرد تانتا بندھ گیا۔

میں نہیں جانتا اس دنیا میں خدا کو

میرا خُدا ابھے چند ہے یا کوئی اور  

لاہور میں سرمد کی داراشکوہ سے شناسائی ہوگئی ۔دارشکوہ کے نظریات اکبر سے ملتے جلتے تھے ۔وہ آزاد ،صوفی منش بندہ تھا جو ہندوازم کے زیادہ قریب تھا ۔ دارا کی والہانہ عقیدت حضرت میاں میر سے چھپی نہیں تھی ۔گرچہ اپنی زندگی میں حضرت میاں میر سے بیعت نہیں کرسکا مگر ان کے بعد ان کے خلیفہ سے کافی والہانہ تعلقات رہے ۔بادشاہِ وقت کا بیٹا ہونے کے باوجود عرفان کی تعلیم حاصل کی ۔ جب اس کی سرمد سے مُلاقات ہوئی تو وہ سرمد کا متوالا ہوگیا ۔۔جیسا دارا کی بے قرار روح کو سرمد کے  اشعار سے قرار ملتا دکھتا ۔ بادشاہ کو سرمد کا عالمِ برہنگی میں شہزادے کے ساتھ رہنا کافی کھلتا تھا ۔ بادشاہ اس سے پہلے کچھ کرتا ،اورنگ زیب خونریز تخت نشینی کی جنگ بعد سلطنت پر جب فائز ہوا تب سرمد کے بارے میں امراء کے اعتراضات اس تک پُہنچے ۔ اورنگ زیب نے اس کو دربار بُلایا اور کہا 

دیکھو! خدا نے مجھے ابدی سلطنت عطا کی ہے میرا وعدہ جھوٹا نہیں تھا ۔

سرمد نے ایک رباعی کی شکل میں اورنگ زیب کو جواب دیا:

آں کس کہ ترا تاجِ جہانبانی داد

مار را ہمہ اسبابِ پریشانی داد

پوشاند لباس ہر کرا عیبے دید

بے عیباں را لباسِ عریانی داد

"جس نے تمھیں دنیا کی حکومت دی

اس نے سارے درد کے اسباب مجھے دیے

وہ ان کو حجاب /لباس میں رکھتا ہے جو عیب دار ہوں

بے عیب کو وہ برہنگی کا لباس عطا کرتا ہے

روایت ہے کہ اورنگ زیب کو اس کے اس جواب سے کافی طیش آیا مگر یہ جواب سرمد کو قتل کرنے کا جواز نہیں بن سکتا تھا اس لیے اُس پر سزدوائے موت کا حکم سناتا اور وہ لمحہ بھی جلد آگیا جب اُس نے حضور پاک ﷺ کے واقعہ معراج پر اپنے جذبات قلمبند کیے 

مُلا گوید کہ برفلک شداحمدﷺ

سرمدگویدبہ احمد در شد 

صوفیا کے نزدیک اس میں کچھ ایسا الحاد نہ تھا جبکہ بعض علماء کے نزدیک نبی اکرمﷺ کا سفرِ معراج بھی علامتی نوعیت کا  تھا۔ اونگ زیب ایک متعصب حکمران تھا ایسی گُستاخی کہاں برداشت کرسکتا  تھا جس کے نزدیک یہ عقیدہِ محمدی ﷺ میں ایک نئی اختراع ہے۔یوں اس نے اپنا انتقام اس برہنہ  صوفی منش شاعر پر اُتارا اور اس کی سزائے موت کا حکم دے دیا۔جب 

جلاد اورنگ زیب کے پاس آیا تو اس نے اُس سے کہا :

رسید یار عریان این تیغ دم

بہ رنگی کہ آیی تورا میشناسم

دوست ننگی تلوار لیےآگیا ہے

کسی بھی روپ میں یار آئے ،شناسا لگے

بیابیا کہ ہر صورت تورا میشناسم
بہ رنگی کہ خواہی جامہ میپوش،من از طرز خرامت  مینشاسم

اور پھر گویا ہوا

ایک گونج سُنائی دی اور ہم نے ابدی نیند سے آنکھیں کھولیں ۔مکاری و عیاری کی رات کو پنپتا پایا تو دوبارہ نیند طاری کرلی ۔

سر جدا کردہ تنم شوخی کہ باما یار بود
قصہ کوتہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود

عاقل خان رضی جو اورنگ زیب کا درباری مورخ تھا وہ لکھتا ہے کہ جب جلاد اس کا سر اڑانے ہی والا تھا تو سرمد نے کہا

جسم کی برہنگی دوست کے لیے خاکی راہداری ہے۔اس کو بھی اب ہٹادیا جانا ہے ، سر جدا کردیا جانا ہے

سرمد کا ساتھی اسداللہ شاہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ابھی بھی موقع ہے ۔تم کلمہ پڑھ لو ، اپنے عقائد درست کرلو

اور اس سزا سے بچ جاؤ۔اس پر اس نے جواب دیا:

عمریست کہ آوازہِ منصور کہن شد
من از سرنو جلوہ دھم  دار ورسن را

منصور کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اب  میں پھر سے  دار پر چڑھوں  گا اور رسی کھینچی جائے گی 

سرمد کے پھانسی والے دن اورنگ زیب کو مشورہ دیا گیا کہ سرمد کو محض برہنگی کے باعث واجب القتل نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ، اسلامی رسومات کے مطابق اس کو کلمہ پڑھنا ہوگا ۔ مشہور تھا سرمد 'لا الہ '' کہتے اور 'الہ اللہ '' نہ کہ پاتے اور رک جاتے ،جب ان سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ ابھی نفی میں گُم ہوں --یعنی ابھی لا میں گم ہوں ، فنا میں گم ہوں  'الہ اللہ ' کیسے اپناؤ۔جب اورنگ زیب نے سرمد کو کلمہ پڑھنے کا کہا یہی جواب اُس نے اورنگزیب کو دیا جس کے باعث سرمد کا سر بدن سے جُدا کردیا گیا۔جب اس کے سر کو تن سے علیحدہ کیا گیا تو اک عجب معجزہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ سرمد کا وجود حرکت میں آگیا اور الہ اللہ کا رقص شُروع کردیا ۔اس کے ساتھ سرمد کے سر نے لاالہ الا اللہ کا کلمہ کئی مرتبہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ماسرا خود را چوکوہ وزیر پا دانستہ ایم
شہر دہلی راہ بہ سانِ کربلا دانستہ ایم
رفت منصور از قصا رفت و سرمد نیزھم
دار ھا را از عطائی کبریا دانستہ ایم

    ٭٭٭٭

سرمد کے بقول اس کودوسروں کے تخیل سے کوئی سروکار نہیں مگر غزل کہنے کے فن میں اس کا انداز حافظ سا، رُباعی کہنے 
میں 'عمر خیام' سے ملتا ہے۔

شاہا شاہا نیم زاہد چونتو عریان نیستم 

شوق و ذوق شورشم لیکن پریشان نیستم

بت پرست کافرم از اھلِ ایمان نیستم 

سوی مسجد میروم اما مسلمان نیستم 

------

In the Kaaba ,the idol temple, He became the stone 

and He became the wood.

In one Place , he became the Hajrul-aswad,and 

in other place , a Hindu idol 

-----

Ghazal ...

He burnt me without cause and behold the spectacle 

He slew me without guilt and behold messaih 

A living who has no soul,thou has seen;

Ye, who care not to have sight of Joesph,

Behold the agony of Zuliekha and Jacob 

Ye, who wander at my hapless days

Behold for a moment this charming face

Thous hast seen , a shah , a darvaish , a qalandar,

Behold sarmdad , the drunken and dishonored.

-------------

Sarmad is body,his soul is in the hand of other,

An arrow but its bow in the hand of other ,

He wished to be a man in order to jump out of nest

He became a cow , whose tether is hand of another

Not only the temple and sanctuaries are his house 

The whole world is mad about his fictions 

He is turly mad who is mad about Him.

-------------

شاہ درویش و قلندر دیدہ
سرمد سرمست و رسوارا ببین

کبھی قلندر اور درویش ایک ہستی میں سماسکتے ہیں ؟آوارہ اور سرمست سرمد کی طرف دیکھو

برسرمد برھنہ کرامت تھمت است
کشفی کہ ظاہر است ازو کشف عورت است

ھر چند کہ  عصیاں مرا میداند
بر خوانم کرم ھر نفسی میخواند
در خوف ورجابسی بسی تامل کرم
بیش از ھمہ مائل بہ کرم ماند
٭٭٭٭٭
سرمد در دین عجب شکستی کردی
ایمان بہ فدائی چشم مستی کردی
با عجزو نیاز جملہ  نقد خود را
رفتی ونثار بت پرستی کردی

سرمد تم نے دین میں ایک عجیب الجھن پیدا کردی ، اپنا ایمان ان مست آنکھوں پر نثار کردیا۔اپنی شائستگی اور عجز کے ساتھ تم آئے اور اپنے تمام فائدے اس بت پرست کودے دیے ۔
٭٭٭٭٭
دل باز گرفتار نگاری شدہ است
در فکر و غم الہ عذداری شدہ است
من پیرو دلم  ذوقِ جوانی دارد
ھنکان خزان خوش بھاری شدہ است

میرا دل ایک بار پھر سے  اس پیارے پر فِدا ہوگیا ہے۔یہ اس پیارے کی خواہش اور  ماتم میں ہے کہ حبیب کے چہرے کو پھر سے دیکھ سکے۔میں بوڑھا ہوں مگر میرا دل جوان ہےاور خزان میں جوانی کا عالم ہے یا خزان میں ، خزان بہار کی مانند ہے
٭٭٭٭٭٭
صد شکر از یار ترحم دیدم
احسان وکرم بہ حال  خود فھمیدم
نخلی کہ نشاندہی ثمر میخشد
آخر گلی از باغ محبت  چیدم

صدہزار شکر کہ دوست کو مجھ پر رحم آگیا۔احسان و کرم مجھے خود پر چھاتا محسوس ہوتا ہے۔وہ بیج جو تم نے بویا ،اس کی کونپلوں پر ثمر لگا گیا ہےاور بالآخر میں نے محبت کے باغ سے پھول کو پالیا ہے ۔
٭٭٭٭٭
خاک نشینی است  سلیمانیم
نیک بود  ز افسر سلطانیم 
چھل سال کہ میرا پوشید مش
کہنہ نشد جامہ عریانم

میری سلیمانی مٹی میں چھپی  ہےجو  کسی سلطان کے تخت سے بہتر ہے،چالیس سال میں نے اسے پوشیدہ رکھا۔برہنگی کے لباس سے ابھی تک نہیں تھکا
٭٭٭٭٭نور ایمان