حقیقت
ازل کی جستجو ابد تک قائم ہے ۔ انسان بھی ازل کی حقیقت کا شکار ہے مگر اس کا احساس وہ کر نہیں پاتا ۔ دنیا میں آنے کا ایک دروازہ ہے اور جانے کا بھی دروازہ ہے ۔ زائر جس طرح دنیا کی سیر کرتا ہے ۔ انسان بھی اس دنیا کی سیر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے کہ اللہ دیکھ کہاں کہاں ہے ؟ کیا موجوادت ِ عالم اس کی تشبیہ پیش کرتی ہیں ۔ ایک پتھر کو انسان سے تشبیہ دی جاتی ہے کیا انسان پتھر ہوتا ہے اور کسی کے دل کو کانچ کی کرچیوں سے دی جاتی ہے ۔ ہر حساس روح نشانیاں ڈھونڈتی ہے اور کچھ اس سے حقیقت پالیتے ہیں جبکہ کچھ مجاز تک رہتے ہیں ۔ سب سے برے تو وہ ہوتے ہیں جن کو نظر آتا ہے مگر آنکھیں بند کرلیتے ہیں جس طرح کبوتر خوف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ اسی بات کا ذکر ہے جب انسان پڑھتا ہے : عمہ یتساءلوں '' کس چیز کا سوال کرتے ہیں ، وہ بے یقین ہیں ، ان کے دلوں میں خوف ہیں کہ حقیقت ان تک آپہنچی ہیں اس مخمصے میں ہیں کہ اس کو مانیں یا نہ مانیں ۔۔عذاب تو وہ چکھ کر رہیں گے ۔۔۔اللہ کا استدالال بھی تضاد سے شروع ہوتا ہے ۔ دوستو ! بے یقین لوگوں کے سامنے یقین سے اپنے دلائل رکھتا ہے ۔
کائنات کی بناوٹ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین ہمارا بچھونا ہے جس پر سیدھا لیٹ کے ہم آرام کرتے ہیں ، اسی زمین سے پھل اور سزیاں اگتی ہیں اور یہی زمین ہمیں جڑی بوٹیاں دیتی ہے اور عورت کی مثال بھی زمین کی سی جبکہ آسمان کی مثال فلک سی ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہوئے ۔ جب ہوائیں تیز چلتی ہیں تو بادل بنتے بارش برستی ہے اور زمیں ہریالی ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ہمیں بتایا ہے کہ یہ میرا نظام ہے اس کو غور سے دیکھو اور اس میں مجھے تلاشو! اور جب تلاش چکو تو میرے قریب ہوچکے ہوگے ۔ اگر زندگی دی تو موت رکھی ہے ۔
میں نے کبھی موت کی اصل محسوس نہیں کی تھی مگر ایک دن نانا ابو کی لاش کے سامنے کھڑی ان کے بے جان گرم وجود کو ہاتھ لگاتی تھی کہ یہ زندہ ہیں یا جاچکے ہیں ۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کہ گئے بھی بڑی تکلیف سی تھے ۔ میری روح کانپ اٹھی کہ پہلی دفعہ زندگی میں موت دیکھی اور میں نے مشاہدہ کیا ۔ ناجانے کیوں مجھے سب اردگرد ماموں اور خالائیں تماشائی لگے ۔ میں نے سوچا اگر یہ رو رہے تو کردار نبھاررہے تھے ۔ ان کی لاش باہر رکھی گئ اور اللہ کی رحمت برستی رہی اور نعش کو ڈھانپ دیا گیا جس بے جان وجود میں سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا تھا ۔ مجھے بار بار محسوس ہوتا تھا وہ زندہ ہیں ۔۔۔میں نے قران پاک پڑھنا شروع کیا مجھے نہیں معلوم میں کب سوئی مگر اتنا یاد کہ میری رات قران پاک پڑھتے گزری ۔ اگلی صبح مجھے یقین آیا ان کی موت ہوچکی ہے اور سب دھاڑیں مار کے رو رہے ہیں جبکہ میں خاموش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کبھی رونا نہیں آیا تھا مگر روح کانپ اٹھی تب میں نے بنا کسی طرز و طریق کے نعت پڑھی اور بلند و بالا درود پڑھا کہ میری اندر کا طوفان تھم سکے ۔۔۔۔ موت نے مجھے پکارا تھا اور جب موت مجھے آلے گی تو کیا ہوگا --------وہ تو خوش قسمت تھے کہ ان کی مٹی بارش کی وجہ سے گیلی ہوچکی تھی ۔ گورکن نے بلایا کہ قبر خراب ہوچکی ہے ۔ قبر درست کروائی تو دس دن بعد بھی ان کی نعش سے مشک و کافور کی خوشبو اٹھ رہی تھی اور ان کے جسم میں کہیں کوئی رد و بدل اور تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔مسلسل تین سال تک اتنی اذیت تو سہی تھی کہ جاتے جاتے اپنے گناہ بخشواتے گئے ۔۔دنیا سے جاتے اذیتوں کا پہاڑ سہتے ان کے جسم استخوانی ہوگیا!
میں کبھی اپنے نانا ابو کے قریب نہیں رہی ہوں مگر وہ جنازے کا منظر ---اللہ اکبر کی تکبیریں ---نعت خوانی اور قران خوانی پھر اس کے بعد ''اللہ ھو'' کا ذکر جو کے سب مرد حضرات نے کیا ---اس ذکر کی ہیبت مجھے آج تک یاد ہے کہ پورے گھر میں ''اللہ ھو'' کی صدا اتنے زور سے گونج رہی تھی کہ جسم کا رواں رواں کانپ رہا تھا جیسے یہ ذکر کرنے والے بھی انسان نہیں ہیں یا ان کے غم اس موت سے اس قدر افسردہ ہیں کہ اپنا غم اس میں غلط کرنے کی دل کے ہر تار کو اس ذکر سے جوڑ رہے تھے ۔۔ کیسے بھول جاؤں موت کا وہ منظر جس نے میرے ذہن میں نانا ابو کی تصویر نقش کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔ موت سے پہلے ایک دن ان کے پاس گئی ۔میں اور میری بہن ان کے پاس بیٹھے -------انہوں نے غالب کے شعر دکھ بھرے انداز میں پڑھنا شروع کردیے ۔میں نے نانا ابو سے پوچھا : نانا ابو ! آپ تو پڑھے لکھے نہیں پھر آپ کس شعر کیسے آتے ؟ کہتے میں تجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں ۔۔۔وہ واقعی بڑے جگر والے تھے کہ بیماری سے پہلے وہ تہجد کے وقت اٹھا کرتے تھے اور ذکر یار میں اپنا وقت صرف کیا کرتے تھے ۔
جب قران کی سورہ نبا پڑھو یا القارعہ ۔۔۔۔اندر سے کوئی جھنجوڑتا ہے اور یہ وہی جھنجھوڑنا ہے جس سے ہمیں قیامت یاد آتی ہے ہمیں بیدار کیا جاتا ہے اللہ کے بندو ! دنیا کو تعمیر میں نے کیا ہے اس کا معمار میں ہوں تو میں ہی اس بات پر قادر ہوں کہ اس کو اکھاڑ سکوں ۔ میں نے پہاڑ بنائے جو کہ اتنے مضبوط ہیں کہ کسی انسان میں ہمت نہیں کہ ان کا اپنی جگہ سے ہٹاسکے مگر روز محشر یہی پہاڑ سیر کرتے چلتے پھر رہے ہوں گے یعنی جو ساکت ہیں وہ حرکت میں ہوں گے۔۔ زمین جس کو بچھونا بنایا وہی زمین زلزلے سے بھرپور تباہی لائے گی ۔۔ جو سورج سمت دیتا ہے وہ کہیں ڈوب جائے گا اس کا نشان نہیں رہے گا ۔ آسمان جو فلک سے بالا تر مخلوقات کا حجاب ہے وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ۔یہ ہے مالک کا استدالال جو سورہ نباء میں کیا گیا ہے کہ تم بے یقین ہو تو میں تمھیں یقین والے عذاب کی وعید سناتا ہے ۔میں نے اس دنیا کو تعمیر کیا ہے تو اس دنیا کو تمھارے لیے عذاب کی جاء بنادوں گا ۔