Tuesday, December 15, 2020

تسبیح

تسبیح پڑھنے سے نہیں آتی، عمل سے آتی ہے.  عمل جانے کس جہان سے آتا ہے. یہ اتمام حجت ہے!  یہ امتحانِ بخت ہے! بھلا امتحان سے بخت کب ملا.  امتحان بھی نصیب ہے اور کامیابی بھی نصیب ہے . عمل کا دانہ بہ دانہ،  تسبیح ہوا چاہتا ہے ـ مل کے عمل یہی کرنا ہے کہ اب پرواز کو پیچھے نہیں مڑنا . اک نظام جس کو وہ رواں رکھے ہوئے، وہ نظام سینوں میں کاربند ہے ـ سینہ بذات خود امانت ہے. امانت مل جائے تو شکررب کا واجب ہوجاتا ہے.  شرح صدر عام نہیں ہے،  شروحات صدور سے صدر مل جانا گویا نظام میں منظم ہوجانا ہوتا ہے.  میم بھی اک منظم اسم ہے. عین بھی منظم اسم ہے اور الف کے گرد اسماء کے دائرے ہیں. دائرے مدار میں مدام گردش میں ہیں اور مرکز نقطہ ہے. یہ لحد میں دل.  یہ اترا کسی میں یے اور مہدِ دل میں عجیب پیغامات ہیں. شعور ذات یہی ہے کہ شعور الف ہے اود بین السطور یہی تاثر یہی ہے میم کے اسم میں افکار گم ہیں. افکار گم ہوجائیں تو الف کا شعور حاصل ہوجاتا ہے ... 

ہم پریم نگریہ گئے 
دھول ہوگئے 
مٹی نے مٹی کو پکارا 
مٹی میں مٹی نے جگہ لی 
مٹی سے سیکھی پچھان 
مٹی سے پایا ہم نے دھیان 
مٹی دیتی ہے بابا گیان 

جسم معلق ہوتے ہیں،  دل منور ہوتے ہیں،  افلاک میں روح ہوتی ہے. روح سے روح نے دیکھا. روح نے کیا دیکھنا تھا؟  کیا جلوہ ہونا تھا؟  اک غائب دوجا موجود. دوجا غائب تو پہلا حاضر. یہی کلمہ ہے. یہی عشق ہے غیبت و حاضری میں مقصود سر بہ نیاز تسلیم خم ہے.  یہ جو دولت ہے یہ دولت پہچان کی ہے. یہ لاگ سے لاگ کا دھاگہ ہے اورمرغ بسمل بھاگا ہے!  مرے گا تو جیے گا. جیے گا تومرے گا کیسے؟  آ!  چلیں سحر میں کھوجائیں 

نازنین و حسین سے پوچھیں گے؟ کیا پوچھیں گے؟  وہ بتائیں گے کہ حسن سے موت کیسی ہوتی ہے!  حسن بذات خود ساحر ہے جو کہ بہتا ساغر ہے . میخانہ الست مست سے اک مے کیا میخانہ لے جا مگر میخانہ کا کیا کرے گا؟  میخانے کے لیے جہانوں کی وسعت لیے قلب  کو  اور کیا چاہیے؟  

گرو سے پوچھو کہ گروہوتا کون ہے. وہ  جس نے پیار سے پکارا یا پیار سے سکھایا. پکار بھی پیار ہے. یہ صدا ہے جو دم بہ دم  دھیرے دھیرے جگہ بنالیتی ہے. مے تو اک ہے کہ میخانہ کیا ہے.  گلاس چھلک اٹھتا ہے مگر پیمانے سے کیا چھلکے گی اس کی جس کی وسعت میں کمی کو محتاجی نہیں ہے.

اے راقب!  بن ثاقب.  سجدہ کرتے ہیں ثاقب ہیں اور تسبیح سجدہ بہ سجدہ کیے جانے سے زندگی کا رقص رواں دواں ہوتا ہے. جس نے رقص کی حقیقت کو جانا ہے اسکا علم  ہوا کہ علم  کچھ نہیں بس اک لایعنی بحث کا ماخذ .. اصل شے نور ہے. نور جس کو مل جائے تو وہ نور ماسوا دیکھے گا کیا؟  جس کو نہ ملے اسکو چاہیے اس کے لیے تگ و دو کرے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے وہ اپنے نور سے نوازے گا ہر اس متلاشی کو جس نے اس کی کھوج کی. اس کو مستی ہستی کا علم نہ تھا مگر عشق کی بوٹی نے اندر جگہ بنائی کہ نیستی نے صدا لگا دی. پھر کون ہوگا نسیتی میں؟  حق موجود!  خدا موجود