سب پوچھ رہے ہیں حیرت کے اسباب
میں کہواں: چل جانے بھی دے اب
سب کہہ رہے ہیں، اچھا! رونق سر شام
میں کہواں: یہ ہے عالمِ اسباب!
سبب ہوا اور مسبب بنایا ہے. سبب کیا؟ اخبار کا ٹکرا، جو لگا دل کا تو لگی چنری میں آگ. نہ بجھی نہ بجھائی گئی. جلی تو جلائی نہ گئی! ارے مٹی میں آگ! جل رہا ہے مٹی بدن! محشر بدن! آگ کندن! نکل رہے ہیں جواہر اور منقش کرسی پر لکھا ہے الحی القیوم
من شانت! من شانت! شانتی مقدر! شانتی سیئات سے دور لیجانے والی ہے. شانتی اک ہستی ہے اور رہتی مستی میں ہے. مستی میں الستی ہے کہ راز الستی کسی فقیر چشتی کے پاس ہے گمان ہے کہ گمان نہیں کہ وحدت کی گنگا میں بس اک چشمہ ہے اور چشمہ کا نام داؤدی سریانی ہے کہ لحن عربی ہے، چاشنی بھی ہے اور ہندسہ عربی جبکہ بات ہندی ہے. یہ کسی قبیل سے نکلا ہے اسم ہے کہ جس کے دھاگے چہار سو بکھر رہے ہیں. کس کی جیون نگری میں.درویش جھوم.جھوم جھوم کی صدا لگاووے. جیون کی مالا میں پریمی اک ہے اور پیالہ بھی. جس نے پیا، اس نے پلایا اور کم نہ ہوئے مئے. اس مئے کو پینے کے بعد لاگ کے دھاگے کہون کہ
اللہ اللہ ستارہ سحری!
اللہ، مرغ بانگ دیتے گہری