Saturday, April 24, 2021

حسن ‏، ‏جذب ‏، ‏خدا

جذب ہوئے تو جذبات امڈ آئے. کاغذ پر رنگ بکھرے تو وعدہ الست  دہرانے لگے. یہ عجب ماجرا ہے کہ خوشبو پھیل رہی ہے اور کہاں تلک خوشبو کی پہنچ ہے، یہ حد حسینیت!  یہ حد جہاں سے اعراض نکل کے، تمنا کو جنم دیتا ہے اور تمنا جنون بن کے پروانہ بن جاتی ہے اور گزرگاہیں پکار اٹھتی ہیں 

انت مجنون!  
پاگل گزرگاہ ہے جس نے خوشبو کو پہچانا نہیں.جس نے پہچان لیا،  اس نے سر جھکالیا. خدا کان میں سرگوشی کرتا ہے اور پھر انسان راز سے پردہ اٹھاتے رہنے میں شعور حآصل کرلیتا ہے اور یہ وہ اسرار ہیں جس کو کل اسرار سے واقف ہونا کہتے ہیں. جب حد،  حد نہ رہے تو سر لامکاں کا.سفر شروع میں ہونے کیسی.قباحت  جب انسان اس سوچ سے نکل منجدھار بنتا ہے تو شاخچوں میں گلاب بھی پیغام دیتے ہیں کہ خدا متکلم ہے اور انسان کلیمی سے مبراء نہیں ہے. خدا جب ظاہر ہو تو قم باذن کی صدا سے دل دہل جاتے ہیں کہ دلِ مردہ دھک دھک کرتا نہیں بلکہ رب رب کو جاپ رہا ہوتا ہے. جاپ ایسے نہیں کرتا ہے کہ کہے " رب، رب " بلکہ کہتا ہے ""رب، کب " یا رب،  اب " "رب،  سچ " سچ،  تصویر "، تصویر حسن،  حسن مجذوب .... بس انسان اسماء پر غور کرتا ہے تو وہ شاہد ہو جاتا ہے اور سچ ہوجاتا ہے. صدیقیت کیا ہے؟  صدیقیت سچ کو ایسے ماننا ہے جیسے اسکو ہوتا پایا ہو. ہاں تم.سے سے کچھ صدیق ہیں اور کچھ شہید اور کچھ شاہد ہیں. بس یہ صالحین کا گروہ رب کا پسندیدہ ہے اور وہ جس کو جیسے چاہے اختیار کرلیتا ہے. اس نے کہا "کن " اور فہم کی کرسی دل میں اتر آئی. جب کرسی اترتی ہے تو فہم انسانی ہیچ!  بس قادر مطلق کی قضا کا عصا سامنے ہوتے اختیار کا ہاتھ ید بیضاء ہو جاتا ہے. تب عصا جھوٹ،  فریب کو نگل لیتا ہے اور حق غالب آجاتا یے کیونکہ غلبہ حق کو ہے. تم سے جو مکر و فریب کرتے ہیں وہ جان لیں کہ واللہ خیر الماکرین. جو اس کی شہادت دیں تو وہ جان لیں شہید زندہ ہیں اور وہ رزق دیتے ہیں. اللہ نے کیڑے کو پتھر میں رزق کا سبب مہییا کیا ہے تو کیا وہ علم کے اسباب نہ رکھے گا. عالم اسباب میں سب سے بڑا سبب تری اپنی ذات خود ہے. جس نے خود میں جھانک لیا اسکو مسبب مل گیا اور سبب غائب ہوگیا

عرفان اک نقطہ ہے اور نقطہ کسی دائرے میں رواں رہتا ہے. معرفت کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہوتا ہے جہاں کرسی قرار پکڑ چکتی ہے. کرسی مقرر ہو جائے تو اس کائنات میں ساری کرسیاں اک بڑی کرسی سے جڑے دکھتی ہیں. بس جب تم اک بڑی جبروت تک پہنچو تو احساس ہوگا کہ تم وہاں نہیں ہو بلکہ جبروتی کے دھاگے تم میں انسلاک ہیں اور تم ہو بھی نہیں سکتے، کیونکہ خدا کے علاوہ یہاں کچھ موجود نہیں ہے اور تم خدا نہیں ہو. تو کیا جانا تم کون ہو؟  بس ہم نا معلوم ہیں اور وہ معلوم ہے. اس کے معلوم میں شامل ہونا اسکا حصہ ہونا. اسکا حصہ اس سے الگ نہیں ہوتا ہے گویا تم جتنے نامعلوم ہوتے جاؤ گے،  اتنے معلوم کے ہوتے جاؤ گے. جس نے سمجھا وہ خود معلوم ہے وہ نفس کے ہاتھ فریب میں آگیا. بس نفس بڑی رکاوٹ ہے. 

سدرہ اک مقام ہے جس پر پہنچنا نصیب ہے جب نصیب اوج پر ہو تو خود بلایا جاتا ہے پاس محبوب کو اور ذکر نے بلند ہونا ہوتا ہے کہ مذکور تو ذاکرین میں سے تھا. فاذکرونی اذکرکم کی مشابہت کون و مکان سے کملی نمودار ہو جاتی ہے. اس کملی نے جتنی مثالیں شامل کر رکھی ہوتی ہیں وہ مثالیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور لگتا یہ عالم مثال میں بس اک حقیقت ہے کہ بس ایک نے ایک کو ہمیشہ دیکھا. گویا کوئ موجود ہے ہی نہیں،  بس ایک،  ایک کے لیے موجود ہے. یہ وہ رمز ہے جس کو جانا جا سکتا ہے بعد بیتنے کے. جب بیت جائے تو طالب و مطلوب کے رشتے سمجھنے لگو گے. جان لو گے کہ اسی دنیا میں اللہ کسی روپ میں ظاہر تو کسی روپ اسکا محبوب. یہ جو سینے راز اگلتے ہیں یہ اس کی احسن شارح ہیں کہ اللہ واحد ہے اور کلیمی، کلیم جانتا ہے مگر بات یہ ہے کہ دیدار کی حسرت خمیر میں رکھی گئی کہ تجلیات میں کامل و اکمل اک تجلی ہے جب وہ رو سینے میں دوڑتی ہے تو ہر جانب خدا کا جلوہ دکھنے لگتا ہے تب حق کا پیغام پہنچانے کو اٹھ کھڑا ہونا ہوتا ہے