حصہ اول
پسِ تحریر
ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا
"ابھی صبح نہیں ہُوئی "
یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .
.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....
"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا
ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....
جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی
اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟
وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "
اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....
اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "
ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "
اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!
ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!
جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "
اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!
مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!
لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا
"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "
وہ بولی "پھر کیا ہوا؟
ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "
میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟
وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "
تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے
....!