سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے. ..
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے ..
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر دکھا دے ......
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے ....
جو ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر
اس کو اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے ....
آہ! وہ لطفِ چاشنی .... مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے ......
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی .....
مسافت کے اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے
یہ آئینِ نو کی شمع! یہ دلِ حزین ملال سے پُر ....
فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو،کسی بات کا گلہ باقی رہے، کچھ گلہ باقی ہے؟
اوج دے، بندگی کے جوہر خاک میں بَسا دے .....
مقدر لکھا جاتا ہے خیالات سے، منور ہوتا ہے جہاں دل کی کائنات سے، جہاں زَخموں سے نَڈھال، ہر آنکھ شَرر بار،ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ کی تاب نَہیں؟
گناہ گار ہستی کے درد بھی بیشمار، ہجرت بھی نہیں، لذت وصلت بھی نہیں، جبلِ رحمت کسی نعمت سے کم نہیں
ایک صدا پردہ ء تخیل چاک کرتی ہے، حجابات بے ردا کرتی ہے اور تابانی سے عالم منور کرتی ہے اور رخِ لیلِ کو بے نقاب کرتی صبح کا عندیہ دیتی ہے.
ضوئے شمس سے زمانہ روشن ہے .... نئی شام کا ماہتاب مدام شوق سے منور ہے ... نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....بگڑی بنتی ہے، آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ، دائم جسکا جلوہ، احساس کا تلاطم برپا...
جام جم پلائیے، بادہ خوار بنائیے ،سادہ قصہ ہے اور درد والی بات، ساتھ بس ساتھ کی نوید سے آہنگ نو سے ملا دیجیے
ُحسن کی نُمو ہورہی ہے اور ضو سے مو مو میں روشنی کو بَہ کو ......، وادی ء حِرا میں ایسے مثال کو لایا گیا کہ حُسنِ بے مثال کے سامنے مثال ہیچ! وہ عالم لامثال سے باکمال حُسن کے مالک اور ملکوتی حُسن نے اندھیرے میں جگہ جگہ ایسے مطالع روشن کیے کہ جہاں جہاں کرن وہاں وہاں سورج تھا. یہ سورج جس کے دھارے سے تمام ستارے کرنوں کی صورت بکھیر رہے تھے .. وہ کائنات ہے اتنی بڑی ہے کہ تمام کائناتوں کو سموئے ہُوئے ہے.اس حسن میں تاب کتنی ہے کہ کہیں دل شق ہوکے پڑا رہے اور انگشت کے اشارے سے جڑ جائے پھر، کہیں مسکراہٹ سے دل میں کھائیاں اور کھائیوں میں روشنی کے انبار ...
رنگ نے رنگ سے مانگا اور دیا گیا رنگ
.رنگ تو اللہ کا بہترین ہے. یہ اپنے جذبات کا رنگ ہے.. مصور نے بَرش کینوس پہ ڈالے تو رنگ سات تھے مگر بکھرا انبار گویا قوس قزح ہو .... اس نے کینوس پر خصائل کے رنگ ایسے بھرے کہ خصائل مجموعہ ہائے خوش خصال مثال باکمال ہے . اسی سے نکلے باقی تمام رنگ، جذبات کے، احساسات کے رنگ.
رنگ کی مانگت
رنگ کی پہچان
وہ ملے جو اپنا
اپنا تو ہے سچا
.