Thursday, February 3, 2022

اپنی ‏تحریر ‏

اپنی تحریر اُٹھا،  اٹھا کے ورق ورق گردانی کر .یہ مصحف داؤدی ہے جس کو ترنگ مل گیا ہے. یوم الست کسی روح کو ملا ہے قرآن پاک  .اسکا سینہ تجلیات کا مسکن ہوا ہے. تجھ کو علم مگر نَہیں کہ خُدا تُجھ سے کیا چاہتا ہے جب تک کہ نوری قندیل ترے سینے میں ہے. یہ قندیل ایسی ہے جو شرقی ہے نہ غربی ہے. یہی ذات کا ستارہ!  
مبارک ہو تجھ کو چُنا گیا ہے 
مُبارک ہو تو نیک ساعت کی پیدائش ہے 
مُبارک ہو تجھ میں خاص نور ہے 
تجھ کو علم ہے کہ خدا نے کچھ انس و جن ایسے رکھے ہیں، جو کہ اس کے لیے مخصوص ہیں  خدا کی خاص ارواح ہیں.

میں اگر ترے کن کی محتاج نہ تھی تو کن فیکون سے پہلے کی پہچان کو عدم سے وجود میں لایا کیوں گیا؟  بتا؟ مجھے چاہا کیوں گیا؟  مجھ میں تری چاہت کے نیلے چھینٹے ہیں!  یہ خاص تری الوہیت کے ساز ہیں جو مجھ میں بج رہے ہیں!  بتا کہ تو چاہتا کیا ہے مجھ سے؟


تجھے علم نہیں کیا؟
تجھے علم نہیں ترا مقصدِ حیات؟
تجھے علم نہیں کہ تونے مجھے چاہنا ہے اور پہچان کو معلوم کرنا ہے .. کیا تو نے فنا کو سیکھا نہیں ہے!  تو محبت کے خمیر میں ڈوبا زیتون کا وہ نسخہ ہے جس کو شاخِ انجیر سے توانا کیا گیا ہے.    اب چل!  ترے ہونے سے تری تخلیق کا مقصد پتا چلے

میں نے مقصدِ حیات میں فقط تجھے تو مانگا ہے اور تو نے مجھے کسی اور جگہ پھنسا دیا. میں نے تجھے دیکھنا چاہا ہر جگہ تو شجر سے تو بول پڑا 

میں تری پاک وادی میں ہوں اور نفس کا مقام تجھ پر کیسا ہے؟  
حجاب میں نہیں ہے کوئی مگر افکار میں تو نے ہمیں پایا ہے. دھیان ہے نا تری قوت اور قوت سے تو نے چاک گریبان کرکے مجنون کہلوانا پسند کرلیا جبکہ تجھے تو چاہا گیا. تجھ کو مگر علم نہیں ہے!  اب تو علم تو ہونا تھا تجھ کو

یہ اچھا کھیل ہے جو مری ذات سے چل رہا ہے! کبھی سامنے تو کبھی پہاڑ اوجھل مصداق ہو تم. تم ہو کے بھی ساتھ نہیں میرے تو کہاں ہو تم؟
کھیل کہاں ہے آتشِ نمرود میں کود جانا؟  
کھیل کہاں ہے خود سے ملنے کے لیے ہر حد پار کرجانا 
محبوب کی تسبیح آسان کہاں ہے؟ .
چل کر میری تسبیح

تسبیح دل کے پھڑ کے کہا جارہا ہے 
اللہ سوہنا سائیں 
اللہ مٹھن سائیں 
اللہ پیارے موہن پیا 
اللہ رگ رگ میں روشن آیت 

تسبیح عمل کی ممکن نہیں نا


تسبیح مناجات بھی ہے 
تسبیح گردش حادثات میں ممات سے گزر کے شکر بجا لانا بھی ہے 
تسبیح موت سے گزر کے پاس آنا بھی ہے 
تسبیح میں حاضر ہونا ضروری ہے 
تسبیح میں عادت نہیں،  فطرت ضروری ہے 
تسبیح میں کھڑے ہیں دوستان علی 
عمل میں کھڑے ہیں دوستا نِ بکر 
صدیقیت مثال طٰہ کی تجلیات لیے سیدنا ابو بکر  
وہ عثمان غنی حیا کی مکمل تصویر کی تاثیر لیے

تسبیح میں علی عالم کی کائنات کا اجالا ہیں 
تسبیح میں اللہ والے ہیں 
تسبیح سے ملا اک پیام کہ ذاکر ہوتا ہے اللہ کا پیارا اور مذکور ہوجاتا ہے 
تسبیح ذاکر و مذکور کی کہانی ہے