Monday, October 12, 2020

تمھارا ہونا باعث رحمت ہے

تمھارا ہونا باعثِ رحمت ہے کیونکہ ہم میں سے رحمت وسیلہ ہے اور حیلہ بنتی ہے خدائی نعمت کا . قلم نعمتِ رب ہے ... یہ اسی طرح ترقی کرتا ہے جسطرح حرا کی وادی سے روشنی پھیلی . اقراء پہلا مقام ہے اور کائنات کی میم کے سائے بُہت. سمجھوں جس نے میم کا سایہ پالیا اسکو رحمت بنایا گیا بوسیلہ رحمتِ میم کے. رمز انوکھی ہے مگر رمز آخر ہے درست. سایہ بھی ان کی کملی. پوری کائنات اس کی کملی سے مانگ کر کھارہی. سوال اٹھتا ہے وہ  "یا ایھا " لفظ جو المزمل یا المدثر کیساتھ لگتا ہے، وہ یا ایھا لفظ تو میں تم  کہوں جیسے "سنو مرے دل " جب میں ایسا کہوں تم مجھے احساس ہوگا کہ دل تو مرے سامنے ہے جبکہ ہم یا ایھا کہتے ہیں تو ہمارا دل ہمارے سامنے نہیں ہو سکتا؟ ہم سے کہلوایا جاتا ہے یا ایھا ..یہ رب کی زبان ہے جبکہ کہہ ہم رہے گویا ہم رب کی مثل اسکے محبوب کو پکار رہے. کیا تم کو لگتا کہ ہمارا نفس ساتھ ہوگا اسطرح کی نعت میں؟  نَہیں !  اگر نفس ساتھ ہو تو عیاں تک نہ ہو یہ نعت ہے. اسطرح جب میں کہوں اٹھو اور جاؤ  عید مناؤ .... عید تم منارہی ہو کیونکہ میں نے کہا ہے مگر جب قران پاک کھولو تو اللہ فرماتا ہے حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مبشر ہیں ...ہمیں خوشخبری دیتے ہیں ..کون سی خوشخبری . ... کیا جنت میں ان کا جلوہ .... جنت ان کو جلوہ ہے اور بنا جلوے کے تو شیطان بھی رہا کرتا تھا ...ملعون ہوگیا ...یہ جلوہ آدم علیہ سلام کو ہوا تھا ...دیکھو کیا خوب معاملہ ہوا ان کیساتھ ..جب رب نے ان کو علم الاسماء دیا یہ اسم کتنے حرف پذیر سماعت ہوں گے کہ جیسے خدا نے کہا ہوگا تو کن لفظ ہے؟ نہیں یہ قفل کی چابی یے کہ ہوجا ..جب سورہ المدثر میں رب نے کہا "قم " تو یہ اسم بھی کنجی ہے کہ اٹھو تمھاری روح کے لیے اس منصب کا در کھولا گیا یے. اس منصب کو نذیر کہا تحفہ کہا گیا ہے. یہ توشہ رحمت...  یہ ہادی الامم ہے ...قم کی کنجی ہر پیامبر سے چلی آئی ہے مگر کیا خاص بات ہوگی اس قم میں جو آنجناب عالی سرور عزت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ملا ...اصل میں یہ نعمت ہے جو چل رہی ہے جسکو کہا گیا انا اعطینک الکوثر ...یہ کوثر کا فیض ہے جسکو وارث کے طور پہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آگے مومنین میں منتقل کرنے کا ذمہ معبود برحق نے لیا ہے. یہ روحانی علوم ہیں جن کو انشراح صدر کے بعد معلوم کے دل میں اتارا جاتا ہے. یہ معلوم کون یے؟ یہ وارث جسکو علم دیا گیا وہ معلوم ہوگیا اس لیے قران پاک نے فرمایا ھل یستوی 
..کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ..سنو ..علم جلوے سے ملتا ہے ..جسکو جلوہ نہ ہو تو سمجھو وہ لا علم ہے جسکو علم نہ ملا تو اس کے لیے لفظ ایسے ہیں جیسے وہ چابی جس کو تالا نہ ملا .... جب آپ کو خالی چابی مل جائے تو آپ اسکو طاق میں سجا دیں گے یا پھر اسکو سجانا تو کجا اسکو لینا چھوڑ دیں گے کہ چابی کا استعمال آپ کی نگاہ میں کچھ نہیں یے ..  اس لیے ہر قفل کے لیے اک چابی ہے. تمھاری روح مقفل ہے مری روح ...یہ لفظ چابیاں ہیں جن سے ہماری روح کے قفل کھلیں گے. اب ان چابیوں کی شنا خت لازم امر ہے کہ کس لفظ سے ہماری روح کےقفل در کھلیں گے. جونہی یہ کھلا روح آزاد ہو جائے گی. آزاد روح غلامی قبول نہیں کرتی. یہ سیر کرتی ہے جہاں جہاں کی. اس کے لیے آسان امر ہے کہ فلک پر جائے یا ناسوتی ء خلق کے عظیم الشان اجلاس کو جا کے دیکھے یا معلق رہے. اے عزیز من!  یہ دل کھوگیا ہے ان کنجیوں میں جیسے تم نے اگر اسرار معرفت تلک اس سیڑھی تک جانا یے تو پرواز کی انتہا تلک کی تمام کنجیاں اک حرف میں پیوست ہوکے تیر کے نشان کے مانند تمھارے دل میں حلقہ بنائے رکھیں گے. پھر جو کوئ اہل ظر گزرے گا وہ بتا دے گا کہ الف واسطہ ہے کوئ کہے گا میم واسطہ ہے کوئ کہے گا ح واسطہ ہے کسی کو ع واسطہ لگے گا مگر مری جان یہ اسم نہیں ہیں یہ حروف ہیں یہ حروف یکجا ہوکے مل جائیں تو ہم روشن منور تجلیات کو سہتے ہیں جس کے لیے اللہ نے نور علی النور کی تشریح ہم کو بیان کی یے ..  اب سوال یہ ہے کہ کون ہم کو بتلائے کہ ہم کیسے اسراد کی تلاش میں خود سے پوچھیں ..  اسکے لیے مرشد کی ضرورت پڑتی یے مرشد مجاز میں مل جاتا ہے یہ روحی روحی چشمہ ء کوثر بھی ہوتا ہے ..بس تجھ کو کسی روح سے نسبت ہو تو سمجھنا لازم یے وہی تری آیتِ کوثر ہے