Thursday, October 15, 2020

لکھنا ‏حل ‏نہ ‏تھا ‏: خط

میں نے خَط لکھا اور لکھ کے اسکو بَہا دیا.  یہ خطوط تو عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک پہنچتے رہے. میں بھی تو اسکا خط تھی مگر میرا چہرہ کس سورہ میں لکھا تھا،  حم کہتے کہتے نگاہ رک جاتی ہے اور نگاہ یٰسین پر ٹِک جاتی ہے.  حم کے انتظار میں ہجرت نے کتنے اژدہام میرے وجود میں اتارے دیے. لباسِ تار تار کو رفوگری سے ہو کیا کام،  اس کو چارہ گری سے ہو کیا کام. مگر پھر نقطہ یاد آتا ہے میں اک نقطہ تھا اس نے خط کھینچ کے مجھے بھیجا. میں نے سمجھا کہ میں دور ہوِ وہ خط گھٹ رہا ہے جیسے میں نے زمانی نور کو پالیا ہو جیسا وہ حم کی منزل پر مستقیم ہو اور حبِ حسینی جس نے خمیر کو جکڑ رکھا ہے اس کے بنا یہ کام ناتمام تھا. کسی نے کہا چلو قافلہِ عشاق میں اک سواری تمھاری تو کب سے خالی تھی مگر تم نے آنے میں دیر کی اور میں نے کہا کہ میں کس جگہ ہوں کہ میں نے نقطے کو نقطے جیسا پایا نہیں ابھی میرا خط ابھی میرے سامنے ہے. زمانی نور مکانی نور سے ملا نہیں. جب ملا نہیں سب جھوٹ ہے سب مایا. زمانے کو مکان میں آنا تھا یا مکان کو زمان میں جانا تھا. ہالہ ء نور ہے نہیں. بیساکھیوں کے ساتھ چل نہیں سکتا دل اڑان کیسی؟  اے دل تو اڑ جا!  غائب ہو جا!  تو مت پروا کر،  ترا ہونا ترا نہ ہونا ہے.  تو جسم موجود میں نہیں بلکہ زمانے کے ساتھ ہے


لکھنا  حل نہ تھا مگر حل تو ملا نہیں. اس لیے مدعا کہنے کو کہہ دیا جائے تو غم کو حوصلہ مل جاتا ہے یہ کس دل میں ٹھہرا ہے بولو تو سب دل اک جیسے   .بولو تو دل میں ذات اک جیسی. بولو تو رنگ بھی اک. بولو تو قزح بوند سے بنتی ہے اور رنگ خوشی دے دیتے بولو کہ نہی کے امر میں کن کا نقارہ وجا ہے اور وج جاوے اللہ کی تار ہوجاوے دل دیون درود دی پکار. جے کہوے سرکار سرکار،  ویکھاں میں اونہاں نے بار بار .... شام لٹ گئی میری تے رات وچ شمس دی لالی سی.