Sunday, October 11, 2020

حال احوال والی نظم

 میں، مزاج بخیر

اور عافیت سے ہوں اور سوچا
دوست کی خیریت مطلوب کرلوں وگرنہ
وقت کا پہیہ گھومتے کس کو خبر
کون جانے کس نگر کی خاک چھانے
اور گھڑی گھڑی میں بنیں کتنے افسانے.
یہ بس وقت ہے
جس نے اک گھڑی کا ملن اک گھڑی
اور اک ساعت کی جدائی دوسری سے رکھی ہوئی
اور فاصلے مقرر کیے ہوئے مابین.
بس تار ملتے اور دور ہوتے رہتے ہیں
گویا مقناطیس کی لہریں کشش کریں
اور کبھی دوری
کسی اور جانب برق کی مانند لیے جائے.
آپ کہیں گی کیا بات لمبی کردی.
بس بہانہ تھا
کہ بہانہ ہو
اور بہانے سے بات ہو


مجھے بہانہ چاہیے تھا مزید کچھ کہنے کا ، سو جوابا اتنی لمبی نظم کہی کہ بس !



لفظ پروانہ ء حسن ہیں اور حسن کو قید کیسی؟
بس آپ نے سراہا ہے تو سراہا اس حسن کو،
جس کی تپش سے آپ مخمور ہیں،،
جس کی شعاع خاص درز درز ہوتی
مجھے نہ جانے کتنے شمسی،
کتنے قمری سالوں مدہوش رکھتی ہے.
نیم واہی میں زمانے دیکھتے
جب رفتگی کو کوچ کرتی ہوں،
تو عدم ہی ظہور لگتا ہے،
ظہور پر عدم کا گمان ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے ،
دامن دل میں بے پایاں موتی ہیں ،
جوکسی جوہری نے لعل بمانند رکھے ہیں. ،
جو فلک نشین ہے
وہ دل کے قرین بھی ہے ،
قربت سے نوازے تو
تو ارض و سما حسین لگتے ہیں
. یہی جب میں کہتی ہوں،
تو نہ جانے۔۔
اس کہنے سننے کی صدا ،
کوہ ندا پر کھڑا ہو گویا کوئی عاشق،
جس کی پکار گونج بن جائے
کچھ سن کے صدائے دل
سربزم رسوا کردیں
اہل ہنر دندان میں انگلیاں داب کے حیرت کناں
یہ کس منصور نے جرات کردی،
کوہ ندا سے نالہ دل کو،
آتش ذوق سے نکلتے،
وہ قوت وجلا ملی کہ مجمع لگ گیا