Monday, October 12, 2020

وہ مجھے لکھ رہا ہے

جو اسکی میں ہے وہ میں ہوں. جو اسکا علم ہے وہ میں ہوں  جو اسکی تختی ہوں وہ فقط میں ہوں  اسکی سیاہی مجھے لکھ رہی ہے. اسکا علم معلوم ہو رہا ہے. اسکی شہنائی بے صدا سے صدا ہو رہی یے. مجھے اسکی کیفیت منکشف ہوئی ہے. وہ صاحبِ حال کسی شخص میں لکا چھپی کا کھیل رہا تھا .... اسطرح سے وہ گمارہا تھا بندے کو اپنے حال میں. وہ اسکا یار تھا اسکو قال سے دور کردیا تھا. یوں اک مٹی کے پتلے میں صدا اٹھ رہی تھی جو اسکی شبیہ تھی اسکا آئنہ تھا. وہ دیکھتا تھا تو دکھنے لگا. وہ سنا رہا تھا تو سننے لگے کان وہ کہہ  رہا تھا کچھ علم نہ ہوا کس نے کیا کہہ دیا ...


بھٹ شاہ سے اک سوغات دنیا کو ملی ہے. وہ عشق کا ایسا سوز ہے جسکے درد سے کھوٹ نکل کے رقص کرتا ہے کہ کھوٹ بھی مسلمان ہے. گویا ضد نہ رہی ہو گویا اندھیرا نہ رہا ہو. گویا سویرے والے چھپ گئے ہو ...وہ بزرگ جو ہمیشہ کڑی دھوپ میں وقت گزارا کرتے تھے اور ہوا سے سرگوشی ان کا دین تھا ... لطیف شاہ سچ ہوگئے. سچ ہوئے لطیف شاہ اور پھر عصا لیے وہ یدبیضا لیے جا بجا پھرتے رہا کرتے رہے ..  تلاش کیسا گھماتی ہے جو آواز ہے اٹھتی اندر سے اور کرلایا بولایا انسان جابجا سرگرداں رہتا ہے. یہی ہوا پھر جو اک دن وہ حق کی آواز میں ڈوبے تو ماہ صیام شروع ہوگیا. یہ مہینہ ان پر ساری زندگی دائم ہوگیا اور ان پر قران اترتا رہنے لگا ..وہ قران والے بابا ...وہ صحیفے والے شاہ ہیں اس لیے بھٹ میں رہنے لگے تھے ... یہ جگہ جہاں سے یہ آواز سچل سائیں میں چلی گئی. یہ آواز منتقل ہے. اسکا انتقال کیسے ہوا ہے کبھی نہ جانا یے. انسان خود کچھ نہیں ہے یہ صدائیں ہیں جو اس کو مجھ سے ملاتی ہیں. یہ پریم کی نیا ہے ...یہ پریمی کی نیا جس میں لال سرخ بخاری نے سرخی بانٹی. ہوش کی زبان میں کمال کا بیہوشی سے غالب لہجہ تھا انکا. وہ آواز گفتار میں ہو تو باقی صامت جو صامت و ساکت ہو تو اسکے قفل ہو جائیں کھل ... وہ کھلے دروازے جن پر سرخ بخاری کی ھو پہرا دے اسکا کیا ہوگا. اس کے لیے شیطان بھی ڈر کے بھاگ جاتا یے جب نام حیدر لیا جاتا یے. نام حیدر کرار ثانی کی بات ہے. بس اوقات نہیں ہے