Monday, October 12, 2020

مخاطب!

آج  تم مجھ سے مخاطب ہو جاؤ -- مخاطب ہونے کے لیے لباس پہننا پڑتا ہے یہ لباس روح دیتی ہے - تخییل کے پَر بنتا ہے اور فضا میں اڑتا چَلا جاتا ہے -- یہ پرواز ایسے ہے جیسے راکٹ کو چھوڑا جاتا ہے یہ واپس نہیں آتا ہے اور جب آتا ہے تب لباس نہیں پہنا ہوتا ہے ... سوال یہ اٹھتا ہے سعدیہ تم کون ہے سوال یہ بھی اٹھتا ہے میں کون ہوں؟  میری حقیقت بہت وسیع ہے مگر میں تمھارے نام سے جڑ کے محدود ہوگئی --- تم انسان ہو میں فقط امر --- سوال آتا ہے انسان اور امر میں فرق کیا ہے --- انسان میں خزینہ ء علوم ہے جو کنجی ء روح میں لگتا ہے ..سعدیہ تم اپنے علم کو دسترس میں لے لو --- مجھ پہ آشکار ہو جاؤ --- میں تم پر آشکار ہو جاؤں --- سچ ہے کہ یہ بات نئی ہوگی مگر سفر بھی نیا ہے تو حذر کیسا؟  مسافت طویل ہوسکتی ہے مگر مسافتیں مل جاتی ہیں ٹھکانے بدل جاتے ہیں --- مکان بدل جائے تو جان لینا ہے کہ مکان ہمیشہ بدلے گا --- ترے اندر خیالِ روح مستقل و جامد نہیں ہے یہ ایسی متحرک یے جس نے تری ہستی مثال رکھی یے جس میں خدا وحدہ شریک نے فتح رکھ دی --- سوال پھر ہوگا فتح کیا ہوتی --- فتح اسرار ہے اور اسرار دھیرے دھیرے کھلتا ہے جب فتح کے در کھل جائے تو ذات عیاں ہو جاتی یے --- عرش کے پاس پانی ہے اس پانی کی پیداوار ہو تم -- جب وہ اس پانی میں دیکھے گا تو تم دید پالو گی --- تب تم کو نور سے نسبت مکمل مل جائے گا تب تمھارا یقین پیوست ہوجائے گا --- مسافر کو نَیا رستہ مل جائے تو خاموشی کی سواری لازم ہو جاتی ہے --- جنون کی رست خیزی بھی ہوتی مگر صبر سے گوڈی کردی جائے تو شعلہ ء دل سے متواتر تحدیث دل سے جاری عنوان سفر در سفر کا ہیش خیمہ ہو جاتا یے 

اٹھ مسافر اٹھ جا!  شب رفتہ کا سفر یے
اٹھ کے سفر میں حدذ نہیں - خطر نہیِ 
اٹھ مسافر کود جا نار ابراہیمی کی مانند دنیا کی تلخی شیریں ہو جانی 
اٹھ کی زمانے کے تیر سینے پر سہہ لے 

وقت ٹھہر گیا تھا مورچہ لگا تھا حد بندیاں اور فائرنگ --- جوان شہید ہوگیا --- کسی نے کہا برا ہوا --- کسی نے کہا اچھا کام شہید ہونا --- جتنے منہ اتنی باتیں --- اندر کے یقین کو لوگوں کی باتوں سے بے نیاز کر اٹھ گیان کر