Monday, October 12, 2020

صبح کا ستارا

 صبح کا ستارا 


یہ دولت ہے علمُ البَیاں کی*

قَلم نعمتِ رب ہے،  آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے 

حِرا میں ہُوئی ابتَدا، اور سدرہ پہ معراجِ بشری 

شُروعات "اقرا " کی سوغات سے کی گئی ہے 


خدا کے محبوب، عالم کی.رحمت

حرا میں مراقب ہوئے جب 

فَریضہ نبوت کا سونپا گیا تھا

فَرشتہ وَحی لے کے آیا، 

" نَہیں جانَتا میں " کی تکرار کرتے رہے تھے 

 وہ دو قلب یوں پھر ملائے گئے تھے 

کہ نورانی مصحف اُتارے گَئے تھے

خَشیت سے جسمِ مبارک تھا کانپا 

خدیجہ نے کملی سے اپنی تھا ڈھانپا

یہ پہلی وَحی کا اَثر تھا کہ اتنا 

نَزولِ وَحی بعد میں رک گیا تھا

سکوں پھر دِلو جاں کا رخصت ہُوا تھا

یَکایک اَبر رحمَتوں کے تھے چھائے

کہ روحُ الاَمیں پھر وحی کو آئے *



کہا رب نے پھر " قُمْ فَأَنذِرْ"

طَریقِ عِبادت بَتایا گیا تھا 

تو قرأت کے اِسرار کھولے گئے تھے 

یہ بارِ نبوت بَڑی شان سے پھر اُٹھایا 

نبوت سے ظلمت جَہاں کی مٹائی 

ہدایت کا رستہ سبھی کو بَتایا

اُُجالے دلوں میں جو ہونے لگے تھے 

صَحابہ محمد پہ مرنے لگے تھے 

کسی کی تھی نسبت  جناب ِاویسی،

تو روحِ بلالی کسی نے تھی پائی 

کہیں جستجو کو جو سلمان فارس سے نکلے 

جو آوازہ  "حیّ علی خیر " کا پھر اُٹھا تھا 

تو "اللہ اکبر" کی گونجیں صَدائیں،

تَیقُّن سے سینے منور ہوئے تھے*

گرفتار اندیشوں میں سارے دشمن 

مظالم تبھی مسلمانوں پہ ہونے لگے بے تحاشا

تو مکّہ سے ہجرت بھی کرنی پڑی تھی 

خطرناک کفّار کے جب ارادے ہوئے تھے 

گَھروں سے تَہّییہ یہ کرکے وہ نکلے 

  کہ اس شمعِ ایمان کو وہ بجھا دیں

یَقیں کی جو طاقت سے انجان تھے وُہ

رَمّی وہ محمد کی تھی، وہ رَمّی تھی خدا کی 

تو قدرت خدا کی کہ اندھے ہُوئے سب، 

مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تھے 




*چراغِ اَلوہی بجھایا نہ جائے گا، یہ فیصلہ تو ازل سے رقم تھا 

کہ قندیلِ طاہر سے سارے جہانوں،  زمانوں نے روشن ہے ہونا 


یَہودو نَصارٰی مقابل ہوئے جب 

تو کُفّار کو چین پھر کیسے آتا

مُقابل لَشاکر یہ سارے ہوئے تھے

.بَدر میں،  احد میں شجاعت، دلیری، 

فَتوحات کے جھنڈے گاڑے گئے تھے 

   وہ فتحِ مبیں اور کعبے سے بت سب اکھاڑے گئے تھے  

رسالت، نبوت، نیابت کی تکمیل ہوئی تھی

 مقامات درجہ بہ درجہ یہ طے جو ہوئے تھے

تو طٰہ، وہ یٰسین، حم کہہ کے پُکارے گئے تھے *

مقاماتِ بشری کے یہ استَعارے،

یہی راز ہیں معرفت کےتو سارے


وہ شب قدر میں اوجِ بشری 

سرِ لا مکاں سے طَلب جب ہُوئی تھی 

سوئے منتَہی کو چلے سرورِ انبیاء تھے 

ستارے حَیا سے حجاباتِ شب میں 

 منور، مطہر محمد کی سیرت 

تصور میں کیسے سمائے وہ صورت 

فَرشتے تبِ و تاب اس حسن کی لا نہ پائے 

جو جس حال میں تھا، اُسی حال میں مر مٹا تھا

تحیر کی ساعت سے کیسے نکلتا کوئی پھر

حبیبِ خُدا پھر اَکیلے روانہ ہوئے تھے

وہ دن تھا بھی کتنا سُہانا

یہ" ثُمَّّ دَنَا" سے کہیں آگے سفر تھا*

خطِ حد سے کم فاصَلہ تھا

ہیں "ما زاغ" چشمِ کرم ،یہ شَہادت خُدا کی

نِگاہیں مطہر تھیں، دل بھی نَمازی 

وہ معراج،  "صلّ عَلی "کی صدائیں *

وہ اسرٰی کی شب اور اقصٰی کی مسجد 

رَموزِ حَقیقت عَیاں سب ہوئے تھے

محبت میں سب انبیاء ہی کَھڑے تھے 

امامت کو شاہِ رُسل جو کھَڑے تھے

صَبیحو منور یہی وہ ستارہ 

رُخِ زیبا جسطرف اسکا ہو جائے

وُہ پاکیزہ،  طاہر ہو  جائے

مرا دل اسی تارے سے جگمگا دے

سبھی تارے اسمِ محمد سے چمکے