Sunday, November 22, 2020

صبح نے کہا تو قریب ہے

 جانے بات کیا ہے اس نے تھام رکھا ہے

معراج نہیں ہے مگر نہ کچھ عام رکھا ہے
حسرت نہ رکھی ، آرزو کو بھی بے کل کیا
اس نے آنے کا عجب اہتمام رکھا ہے
سورج کی ضو تحفہِ معراج ہے
رات میں نغمگی تحفہِ معراج ہے
وصل جانے کب اصل سے ہونا
اصل کی بات کرنا اصل معراج ہے
عشق کا سانپ دل کو ڈستا رہتا ہے
زہر لہو میں بہتے بے کل رکھتا ہے
موت آئی بھی تو کیسے آئی ہے
زہر کا تریاق اصل معراج ہے
مسیحا نے زخم مندمل کردیے ہیں
رحمت میں رکھنا اصل معراج ہے
ہائے ! اضطراب کا زہر اور دےدے
موت کو پھر شہ موت دے دے

صبح نے کہا تو قریب ہے
رات نے کہا تو حبیب ہے
شمع نے کہا تو نصیب ہے
شہر نے کہا تو رقیب ہے
روح نے کہا تو بشیر ہے
تجھ میں کوئی تو دل پذیر ہے
تو اسیر ہے یا فقیر ہے
نیزہ ہے یا تو شمشیر ہے
در کی جس کے تو بنی غریب ہے
کر دیا ترا دل فقیر ہے

دل میں رہتا کونسا میر ہے
وہ حبیب ہے ! وہ حبیب ہے
وہی تیرا نصیب ہے وہ میرا نصیب ہے!
اے درد ! پاس بیٹھ جا میرے
سُن لے ہیر کی داستانیں
گھُنگھرو پہن ناچوں میں
میں اسیر ہوں یا زنجیر
جنون کی تو تحریر ہے
وہ جو تیرا حبیب ہے
وہ ہی میرا نصیب ہے
اس کا ڈیرا دل میں ہے
وہ جو خود میں کامل ہے
روح میں مکمل شامل ہے

شہِ والا ! ہماری سنیے !
ہمارے دل کی حالت دیکھیے
آپ نے کہا ،وہ کیا
کیا نہیں جو نہیں کیا
ہماری ڈور آپ کے ہاتھ
نہیں چاہیے اور کوئی ساتھ
قصہ رات کا ہے یا یہ ہے بات
خوشبو کی مل رہی ہے سوغات
ہمارے جذب کی سُنے گا کون
درد کو ایسے سہے گا کون
وہ جو میرے دل میں بیٹھا ہے
دیے جارہا ہے صدائیں
ہیر بن کے ناچوں گی
اس کھیل میں رانجھے کو پانا

تیرا اضطراب جنون رقصِ قیس نہ ہوجائے کہیں
لیلی بنتے بنتے تو مجنوں نہ ہوجائے کہیں

یہ شمع ، یہ گُل ، یہ چنبیلی کی خوشبو
یہ رات کی رانی بکھر رہی ہے چار سو
انگڑائی لے رہی ہے کائنات کوبہ کو
من کی اگنی میں جل رہا کوئی ہو بہو
یہ چار دن کا میلا ہے ، دنیا ہے

کیا اکیلے اس دنیا میں نہ آئے؟
کیا اکیلے اس دنیا میں آئے؟
ساتھ میں ہوں ، کیوں دکھتے ہو ستائے
جام در جام پیے جاتے ہو
رہتے پھر بھی پیاسے ہو
صنم اس دنیا کا اکیلا ہے
بیلی ، سجن ، یاروں نے کیا دینا ہے
بڑے پیار کے دعوے ہیں تمھیں
حسن پر بڑا ناز ہے تمھیں
تمھارے حسن کو دید بخشی ہے
تمھاری پیار کو ضُو بخشی ہے
تمھیں اپناکے یار بنایا ہے

فلک سے کہو کہ آشیانہ پوچھے
ندیوں سے کہوکہ ویرانہ پوچھے
زمین سے کہو کہ میخانہ پوچھے
حجر سے کہو کہ آستانہ پوچھے
شجر سے کوئی رازدارانہ پوچھے
کدھر ہے یہ ضوخانہ پوچھے
عاشق سے کہوکہ رازدارنہ پوچھے
رنگوں میں چھپا کاشانہ پوچھے
بُلبل نے کہا کہ کیا کیا پوچھے
مرض بڑھے تو شِفاخانہ پوچھے؟

دل کو وہ ایسے سُنائی دے
دھڑکن سینے میں دُہائی دے
میں اُس کے خیال میں گُم ہوں
اے خاک ! مجھے رہائی دے
سن کے میری بات وہ مسکرایا
ساغر میں گُم کو کیادکھائی دےَ؟
چوٹ لگی ، دل پگھلتا دکھائی دے
میخانے کو میخانہ نہ دکھائی دے
بند اکھیوں میں رستہ نہ سجائی دے
ذات کو اب ذات نہ رِہائی دے
جذب کو واحد ذات میں گمائی دے
اے خاک ! پوچھ! جو نہ دکھائی دے!

وہ جھُکا اور اشارے میں بنادیا
صحرا کو جنگل جیسا سجا دیا
وہ خیال بنا اور خیال نہ رہا
خیال روبرو مگر کچھ نہ دہا
یہی خیال دل میں بٹھا دیا
وہ سامنے مگر دکھائی نہ دے
اے ذات مجھے اب رہائی دے
وہ پاس ہے مگر دکھائی نہ دے
رات پہلو میں گزر جائے گی
زندگی سلگنے میں بیت جائے گی
اس نے مجھ پر کرم پھر بھی رکھا
ذات کو میری سخی کردیا ہے
غنا کی چادر مجھ پر اوڑھا دی
عطر ، خوشبو مل گئے
خوشبو عنبر کی بن گئی
ایک رات کی پہیلی
ایک رات میں سلجھی
من کی اگنی میں مور ناچے
مور ناچے جیسے چور بھاگے