زندگی پر تعجب کرنا سِرا سر بیوقوفی ہے ۔ہم زندگی کو سَنوارتے جاتے ہیں ،یہ بگڑتی جاتی ہے اور جب ہم تخریبی کاروائیاں کرتے ہیں تو ہمیں تعمیر میں الجھا دیا جاتا ہے ۔''ہائے زندگی ، وائے ندمت !'' تم ،میں ، وہ'' کچھ بھی نہیں ہیں بس ''کچھ نہ ہونا'' زندگی ہے ۔ایسی منفیت بھری سوچ سے امید کیا ابھرے گی ؟ ۔زندگی پر تعجب کرنے کا خُمیازہ بھگتنا ہوتا ہے خاموشی کی چادر اوڑھ کے آئنے کے سامنے کھڑے ہوجائیے ،آئنہ کبھی مسکرائے یا کہ کبھی خفا ہوجائے ،کبھی روئے تو کبھی خوف کی ہولناکی سے ہمیں ڈرائے ،کبھی سراپا خودپسندی تو کبھی جائے ملامت ، کبھی آزادی کے خواب دکھلاتے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے والا۔اسکے اتنے سارے رنگ ایک ہی عکس تشکیل دے دیں تو حدیثِ ذات سنانا آسان ہوجاتی ہے اور تعجب کسی کاٹ کباڑ کی دکان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ساری بغاوت اسی آئنے کی تشکیل شُدہ ہے اسلیے ایسے آئنے کو توڑ دینا ہی کافی ہے
خودپسندی زندگی گزارنے کے لیے سب سے اچھی شے ہوتی ہے ۔سارے رشتوں کا نعم البدل خودپسندی ہے ۔دنیا والے اس انعمول طرزِ فکر کی قدر کہاں کرتے ہیں اورنابغے انسانوں کی بھیڑ میں گُم ہوجاتے ہیں ۔عمومًا جتنے بھی ادباء گزرے ہیں ان سب میں ایک قدر تو مشترک ٹھہری کہ سارے خودپسند تھے ۔ ادیب سے لوگوں کی بڑی توقعات ہوتی ہیں ۔جو انسان معاشرے کے سچ کو لکھتا ہے وہ ان کے حالات کو بَدل دے گا۔صدہائے افسوس کہ امیدوں کا ناتواں بدن قدم بوس ہوجاتا ہے جوں جُوں احساس دریچوں کو روشن کرتا ہے۔جو اپنے حال کو بدل نہ پائے وہ کیا دوسروں کے امیدِ کوہِ گراں کو اٹھائے گا ۔مارلو شاید دُکھ کے ناتواں بوجھ کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اسلیے دو گھڑی خوش رہنے کے بعد غمِ حیات کے سنگ کو دل کی جگہ رکھنے کا قائل تھا ۔ اپنے بنائے ہوئے دائروں میں رہنے والا مارلو دُنیا والوں کو نہیں بھایا تھا، کیا خُدا کو بھایا ہوگا؟خُدا کو دیکھیے اوپر بیٹھا اضداد کے قانون کو ہر شے ، شخص پر لاگو کردینے والا ۔خودپسندی کو اُس نے اپنے لیے پسند فرمایا مگر اسکو اچھا نہیں لگتا بندے خود پسند ہوجائیں ۔خودپسندی مارلو کے لیے نعمت ہوئی یا نہیں مگر اس طلسمِ حیرت کدہ میں قدم رکھنے والے، اِس راہی کے علم وتجربے سے ضرور مستفید ہوں گے ۔ انجامِ بعد ازموت کس نے دیکھا ہے ؟ کس کو پروا ہوگی کہ جو ہونا ہے وہ انسان کی زورِ بازو سے ہونا ہے ! بعد از موت کیسے بازو کاٹ دیے جاتے ہیں اسکے لیے خودپسند ہونے کی مشقت کرنا پڑتی ہے ! بے نیازی شانِ خُدا وندی ہے بندہ بشر ان فنی خوبیوں سے ماوراء ہوتا ہے ۔تخلیقار کی تخلیق کا روح سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے ۔لفظ جو قرطاس پر چمکتے ہیں وہ روح سے نکلے ہوتے ہیں ۔مارلو کا ٹریجیکل ہسٹری کا ''کورَسّ'' روح سے نکلا ، لیر لیر تن کی کہانی تھا ! مارلو کا خُدا معاف کرنے کی صفات رکھتا تھا مگر مارلو نے امیدوں کے دائرے کو وسیع نہ کیا ۔ ہم سب اصلی زندگی میں امیدوں سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے جنات نے کے سائے ہمارے پیچھے رواں دواں ہیں ہم ان سے پیچھا چھڑاتے کسی اندھی کھائی میں گِر جاتے ہیں
حوصلہ بڑی انمول شے ہے ۔بارہا ہمیں سوچنے پر مجبور کیے دیتی ہے کہ اس عظیم الشان کا قوت کا مظہر کیا ہوگا ۔وہ کونسی قوت ہے جو اتنا پُختہ کیے دیتی ہے کہ جابر حُکمران مارے خوف کے بُلند عالی پہاڑ جیسے حوصلے کو سلاخوں میں قید کردے ۔فیض کا سلاخوں کے پسِ پُشت ہونا ان کاگوشت پوست کے وجود کے باعث نہیں بلکہ ان کی اَزلی بےباکی اس کا باعث تھی ۔یاس کے مرجھائے پھولوں سے امیدوں کے تیشے کو وجود دینے والے فیض میں یہ حوصلہ کہاں سے آیا ہوگا؟ جالب کے پاس بھی ایسا حوصلہ دیکھنے کو نہیں ملا شاید جالب حقیقت میں رہتے تھے ، ان کی شخصیت کی انفرادیت تمنا کے جال میں الجھنے کے بجائے حال سے نبرآزما رہتی تھی ۔فیض تو چلو امید کو دامن میں جلو رکھتے تھے مگر جالب نے تو اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھا ۔شاید اسلیے جالب کو ہماری کم فہم نظر نے پسندیدگی کے معیار میں اے ون ریٹ کردیا۔ جالب کی ایک بری عادت تھی کہ دوسروں کو الزام دیا کرتے تھے ۔ ہر وقت حکومتِ وقت کو اپنی نگارشات میں تنقید کا نشانہ بنائے رکھنے والے یعنی کہ خود بھی جلے اور دوسرے کو بھی جلائے۔بعد ازاں ہمیں اس سے بہتر انشاء جی لگے ۔انشاء جی کی ایک خوبی تھی وہ خود فریبی میں مبتلا رہے ۔ جب جب خود فریبی کا آئنہ حقیقت کے آئنے سے پاش پاش ہوتا تب انشاء جی خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ۔ فیض و جالب کے مقابلے میں ان کے کلام میں قدرے حلاوت ہے مگر یاس ان کے لفظوں پر اس طرح جمی ہوئی جیسے شہد پر مکھیاں ۔ان مکھیوں سے رستا شیرا چوسنے والے لوگ انشاء جی کو برا بھی کہیں مگر واہ واہ تو ضرور کریں گے ۔
اردو ادب میں خواتین کی کمیابی نقصان کے طور پر مانی جائے یا اسکو خوش آئند قرار دیا جائے یہ تو بعد کے فیصلے ہیں مگر خواتین کے تخیلاتی معجزوں نے اردو ادباء کو انگشت بہ دندان کردیا ۔قراۃ العین نے وسیع کینوس پر پھیلے افکار کو استعمال کرتے ہوئے جو ناول کی بُنت کی ہے اسکی تعریف صدیوں کی محتاج ہے ۔ ایسا ناول شاید کسی بھی زبان کی تعریف سے بالا تر ہے ، ایشیائی ثقافت کے سارے منجدھارے اسی ناول سے پھوٹتے دکھتے ہیں ۔ قراۃ العین کو کس ضرورت نے زمانوں سے بالا سفر پر مجبور کیا ہوگا ۔۔۔۔ماضی حال کے چکروں نے ڈھائی ہزار سالوں کی مسافت طے کردی ۔ یہ کسی کے گمان میں کہاں تھا کہ ایک ناول کی ضخامت اس بوجھ کو اُٹھا بھی سکی گی مگر کامیابی سے اٹھایا بھی ! سوچ کا اس قدر انقلابی ہونا کارِ بیکار تو نہیں مگر اس کا ہونا نعمت تو ضرور ہے ۔ قراۃ العین کے تجربات تیس سال کی عمر میں اتنے پختہ ہوگئے تھے ؟ شاید ہجرت ، شناخت کے کرائسز ایسے ہی ہوتے ہیں جو کبھی قراۃ تو کبھی سلہری تو کبھی اڑنڈتی تو کبھی ماریسن تو کبھی سدوا کو تخلیق کے عمل سے گُزرانے کے بعد شاہکار تخلیق کروائے دیتے ہیں ۔ سارہ سُلہری کی سوانح پر مشتمل ناول جس کا نام جانے کیوں ''میٹلیس ڈیز'' رکھا گیا تھا ۔گوشت کا فقدان یا عدم دستیابی تھی یا زندگی ہجرت کی مثال ۔۔۔ جہاں قراۃ نے دکھ کو تاریخ کے اوراق میں لپیٹ دیا تو سلہری نے اسے استعاروں کی ،خوابوں کی نظر کردیا
دُکھ ، درد اور بہتے اشک۔۔۔سیلِ رواں ۔یہ کب بہتا ہے ؟شاید جب کوئی شے وجود میں آرہی ہوتی ہے ، کوئی آئنہ آئنے سے ٹکرا رہا ہوتا ہے ، کچھ پاش پاش ہوکے بکھر رہا ہوتا ہے ! شیشے کا جسم بکھرجائے تو اچھا ہے اور کچھ وقت کی چادر میں سمٹ کے مربوط ہوجائے تو اچھا ہے ۔یہ دُکھ ،یہ حوالے ،یہ ادب کے مجاور اپنی اپنی خانقاہیں سجانے والے عدم سے آئے اور عدم ہوگئے !انکا وجود تخلیقات کے لیے تھا اسلیے تخلیق کو انہوں نے دوامت بخشی اور تخلیق سے یہ دائمی شہرت کے حامل ہوگئے ۔یہ لفظ جو لکھے جاتے ہیں یہ سرمایہ ہوتے ہیں ،یہی آئنہ ہوتے ہیں ۔آئنہ بنتا ہے ،بگڑتا ہے ،کبھی خفا ہوتا تو کبھی یاسیت سے بھرپور ۔۔۔۔ آئنے پر ایک رنگ جمتا نہیں ہے کبھی دکھ کی دیوی نظر آتی ہے تو کبھی حوصلہ مند ٹھاکر جھروکوں سے جھانکتا ہے تو کبھی دنیا تیاگ دینے والا جوگی اس میں کھڑا مسکراتا ہے ۔کس رنگ کو بندہ پکڑے تو کس کو چھوڑے ! ان سب میں سرمایہِ ماحاصل جذبات سے نکلنے والا آتش فشان ہوتا ہے ، بس !
جانے کتنے آئے ، دکھ تحریر کیا ، آنسوؤں کو صاف کیا ،چلے گئے ۔کتنوں نے آئنے صاف کیے ، اپنا عکس دیکھا اور عکس کے پسِ عکس میں داخلی دنیا کے ثمرات سے لطف اندوز ہوئے ! یہ عکس ، جو وہ تخیل کی دستیابی ہے ، یہی انقلابی سوچ بھی ہے ! ایسے ادباء جو تعقلی سازش کا شکار رہے ان کا نام تاریخ سنہری حروف میں مزین نہ کرسکی ہے جس طرح تخیلاتی شاہکار لکھنے والے اَمر ہوگئے ہیں ۔ شام ڈھلنے کے بعد سویرا کون دیکھتا ہے ۔ زندگی بس ایک صبح ایک رات کا چکر ہے ! جانے کیوں عینِ الصبح سے ازلی بڑھاپے کا سنڈروم کب جان لے گا یا کب ، کون جانے ایسے وائرس کا علاج دریافت کرے گا !