Sunday, November 22, 2020

شہِ کونؐین کے عاشق حضوری میں رہے اکثر

 شہِ کونؐین کے عاشق حضوری میں رہے اکثر

نگاہِ یار کے طالب تجلی میں رہے اکثر

تصور محفلِِ نوری اڑا کے لے گئے ذاکر
پرندے بھی قفس سے ایسی دوری میں رہے اکثر

حریمِِ ناز کے جوشہر منڈلاتے ہیں متوالے
وہ شیدا قبل اس سے خوابِ نوری میں رہے اکثر

مسافر گرمیِ خورشید کی شدت سے گھبرائے
مصائب میں انہی کے دل صُبوری میں رہے اکثر

طلب سے ماوراء ہوتے ہیں طوفِ شمع کے جو گرد
وہ پروانے سدا نوری جلالی میں رہے اکثر

یہ اُنظر نا کے طالب اب کھڑے کب سے مؤدب ہیں
نفوسی ایسے کب سے ناصبوری میں رہے اکثر

سیہ بدلی میں معجز نور پوشیدہ تھا، طہٰؐ تو
خشیت مارے گھبرا کر تھے کملی میں رہے اکثر
نورؔ