Sunday, November 22, 2020

جو تارِ ہست سے اتار کے قبا چلے

 جو تارِ ہست سے اتار کے قبا چلے

غمِ حیات بھی ہمی سے شرم کھا چلے

نشانے پر لگے تھے تیر جتنے بھی لگے
زمانے کے رواجوں پر سو مسکرا چلے

شجر سیاہ ،دھوپ میں جلے، تو سو ہوئے
صبا کے جھونکے خاک، خاک میں مٹا چلے

بریدہ شاخ پر گلُوں کی بکھری مہک
جو لوگ خوشبو کی نئی دکاں سجا چلے

یہ سیل آب جانے کب تلک پرکھ کرے
کنارے سے چٹان ساتھ جو بہا چلے