خُدا میرے غم میں شریک ہے، میری خوشی باعثِ شرک ہے. نوحہ اسکی یاد نہیں مگر یاد اسکی آتی ہے مگر خوشی جب ملتی ہے اسکی یاد نہیں رہتی. دل کی.بے کلی اسکے ہونے سے مشروط نہیں مگر بے کلی کے قرار میں باعث مددگار تو وہی ہے. خیر کہ وجود اسکا کہاں ہے وہ ہے وجود بنانے والا ہے تو وجود بنانے والا بس تاحد نگاہ سے دور ہے. جیسا کہ ایک قوی ہیکل کے ہاتھ میں پتھر اور اس پتھر کو زمین کہیں تو اس میں رینگنے والے اسکو کہاں دیکھ سکتے مگر وہ سب کو دیکھ سکتا ہے سوال یہ ہے کہ وہ دوربین ہے تو ہمیں بھی دور کی نگاہ عطا کردے. اگر دل کی کیفیات اصلی نہ ہوتی تو میں روح کی ہر شے سے منکر ہوجاتی مگر جب کبھی بھرپور طاقت سے روح کے انکار میں مصروف ہوتی ہوں تو اسی شدت سے روح کا احساس ہونے لگتا ہے تب احساس ہوتا ہے وہ موجود ہے مگر میں نہیں ہوں ...میں چل نہیں رہی، وہ چلا رہا ہے، میں ایک کٹھ پتلی جسکی دوڑ اسکے ہاتھ میں ہے. خیر محسوسات ہر انسان پر ایک جیسے وارد نہیں ہوتے اس لیے دوسرا انسان ان کی ضد میں آجاتا ہے، اسکا ضد میں آنا اسی شدت سے خیال کے موجود ہونے کی دلیل ہے جیسا کہ.وجود سے گلاب کی خوشبو محسوس کرنا ... ہر کوئی محسوس نہیں کرسکتا...یہ مافوق الفطرت تو مافوق ہوئ اسکو سمجھ آتی ہے جس پر فطرت سے اوپر کچھ برتا جائے. اس ضمن میں تو دو مثالیں سامنے آتی ہیں کہ بندہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہے یا بیگانہ ہوتے فرزانگی میں مگن ہے. دیوانگی عشق کی لو میں جلتی رہتی ہے اور خوشبو پھیلتی رہتی ہے .. کبھی خوشبو کی اگربتی سے جلتی روح دکھتی ہے تو کبھی نوری ہالہ دکھنے لگتا ہے .... کبھی آپ صلی علیہ والہ وسلم کی نگاہ میں اپنا آپ محسوس ہونے لگتا ہے تو کبھی زبان پر درود جاری ہونے لگتا ہے تو کبھی دو بار درود پڑھنے سے ہزار تسبیح کا سکون مل جاتا ہے تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہزار تسبیح بھی دل کو بنجر کیے رکھتی ہے، کبھی روح رقص میں رہتی ہے ... یہ سب جب بیت جاتا ہے تو دنیا سامنے آجاتی ہے دنیا جھنجھوڑ دیتی ہے اور مگن ہوجانے کے بعد نہ روح کی جانب توجہ نہ دنیا کی جانب ..پھر کسی اک دن اپنی مرضی سے بلا لیتا ہے. اس کے انداز بڑے عجیب ہیں