زندگی سے بچھڑے اک عرصے ہوگیا ہے ۔جب زندگی ملتی ہے تو بچھڑی بچھڑی لگتی ہے ۔ زندگی کے کئی سال بعد میں اُسی مقام پر کھڑی ہوں ، جہاں سے سفر شُروع کیا تھا ۔ زندگی نے کیا کیا لیا ہے اس بات کے ذکر لا حاصل ہے مگر میں نے اس کو کیا دیا ہے یہ بات سود مند ہوتی اگر میں نے اپنی ناکامیوں کا بدلہ اسی زندگی سے نہ لیا ہوتا ۔بارہا خود سے زندگی کو جدا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئی تب مجھے احساس ہوا کہ ایک طاقت میرے ارادے سے بڑی بھی ہے ۔ جو ارادے میرے بنے تھے وہ ٹوٹتے رہے جیسے خزاں کے پتے شاخ سے اجڑتے رہے ہیں ۔ جن پتوں کو میں نے کھروچنا چاہا اور باوجود کوشش کے وہ شاخوں سے گوند کی مانند جمےرہے تب احساس ہوا کہ میں خود میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔
زندگی میں بارہا واقعات اپ کی سوچ کے دھارے بدل دیتے ہیں ۔زندگی سے گزرنے والے واقعات نے میری ہمت و طاقت کو مجھ سے گزار دیا ۔ میرے ارادے ، میرا یقین جب ٹوٹتا گیا جیسے شیشے کے کانچ زمین پر لگنے سے بکھر جاتے ہیں ، میرے ارادے زمین پر کانچ کے ٹکروں کی مانند گرتے رہے اور میں ان کے زخم سینے میں محسوس کرتی رہے ۔۔۔۔۔خون جاری ہو زخم سے کب تلک
لوگ مرہم رکھ چکے شمیشیر سے
میرے سینے میں ٹوٹتے خوابوں کی کرچیاں خون کا سیلاب بناتی رہیں اور میں بظاہر ان کا بدلہ لینے کو خود کا خون بہاتی رہی ۔ خُدا بھی اوپر بیٹھا میرا تماشا دیکھتا رہا ۔ اس نے مجھے ڈانٹا نہ کچھ کہا ،کیونکہ اس نے میرے کیے کرتوتوں کا انجام لکھ رکھا تھا ۔ میں نے جو تیر کمان سے بدلہ کو نکالا وہ میرے سینے میں کھب گیا ۔ بظاہر میرا جسم اس زہر سے گھائل ہوتا رہا اور روح زخمی و نڈھال ۔۔۔ میرے جسم کی دیوار سے نکلنے والی روشنی لوگوں کو دھوکا دیے رکھتی کہ میں ایک بہادر عورت ہوں جس نے خود کو سنبھال رکھا ہے مگر اس کے وجود کی شاخوں کی بنیادیں ختم ہوتی جارہی تھی جیسے دیمک سب کھا جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں اس کھوکھلے پنے میں مرتی جیتی رہی ہوں ۔۔۔ ایک وقت ایسا آگیا جب مجھے زندگی نے بیمار کردیا اور میں نے اپنے وجود سے اختیار کھو دیا ۔خود کا تماشائی بنتے ، خود شناسا ہونا کتنا تکلیف دہ امر ہوتا ہے اور یہ وہی جان سکتا ہے جس پر گزری ہوتی ہے ۔ ایسے سمے کبھی خود پر فاتحہ پڑھتے ، کبھی استغفار پڑھتے ، کبھی رحمت کی دعا مانگتے تو کبھی خود کو خود سے بچھڑتے دیکھتے انسانیت میں چھپے چہرے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے احساس ہوا کہ میں نیند سے جاگ چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیمک تنے کو چاٹتی جارہی تھی
اور ہم کتنے مگن شجر کی نگہبانیوں میں
ایک سال کا عرصہ کم نہیں کسی کے بیمار ہونے کے لیے ، محتاجی کا احساس ہونے کے لیے ! کم نہیں تندرستی کی دولت ! میں نے خود کو نقصان دینے کے سو بہانے تلاشے اور جب زندگی نے مجھ پر ایک وار کیا تب میری ساری اکڑفوں نکل گئی جیسے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے ۔۔۔ اس بیماری میں پچھلے سال اگست میں شاہ رکن عالم جانے کا ارادہ باندھا مگر چلنے پھرنے سے محال ہونے کے باعث جا نہیں سکی ۔ اس کے بعد نومبر میں جانے کی کوشش کی مگر مزید بیماری کا حملہ ہوگیا ۔ ایک سال بعد آج میں شاہ رکن عالم کے گنبد میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ میں ایک سال بعد اس جگہ پر آئی ہوں ! ایک انجانی سی خوشی ہورہی تھی کہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اس جگہ پر آئی ہوں گوکہ میرا جسم میرا ساتھ دینا کبھی کبھی چھوڑ دیتا تھا مگر میری بات مان رہا تھا اور وہ دن جب میں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے بائیک یا کسی رکشے پر بیٹھ نہیں سکتی ، میں ڈاکٹر کے پاس سیدھا بیٹھتے اپنی طبیعت کے بارے میں بیان نہیں کرسکتی تھی اور مجھے لٹا کے میری طبیعت کا پوچھا جاتا ہے ۔ ایک سال بعد میں اس جگہ پر بیٹھی سوچ رہی تھی شاید میں اب میں کبھی ویسا بیمار نہیں ہوں گی ! شاید اب زندگی میں ایسا کوئی طوفان درپیش نہیں ہوگا
صبح سویرے اٹھنا میری عادت رہی ۔ میں آج صبح پانچ بجے اٹھی ، نماز پڑھی ، کچھ قران مجید کے صفحات کا ورد کیا اور چل دی اس راہ جس سمت جاتے ہوئے ارادے کے بنا ہی زندگی لے جارہی تھی ۔ میں نے جوتے اوقاف کے ملازمین کو حوالے کیے اور بوری نما ٹاٹ کے اوپر سے چلتی ہوئی گنبد میں داخل ہوگئی جبکہ دور سے کبوتروں کی غٹرغوں کی بلند آواز مالک کی یاد دلاتی محسوس ہورہی تھی ۔۔ اندر داخل ہوتے گلاب اور اگربتی کی خوشبو سے روح محصور و مسحور ہوگئی ! میں قبور کو پار کرتے ہوئے قبر مبارک کے پاس کھڑے سوچنے لگی کہ یہ ہستی ان کو گلابوں کی کسی محتاجی ! ان کی قبر پر سرخ رنگ کی چڑھی چادر خالق سے وصل کی نشانی ہے ۔۔ وہاں پر کھڑے ان کی روح کے احساس کو اپنے من میں محسوس کرنے لگی ! وہاں پر ان کے لیے فاتحہ پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے اپنی صحت کی دعا مانگتے ، اللہ سے اللہ کو مانگا ۔۔۔میں اس مقام پر ہوں جہاں میری ساری خواہشات مٹی مٹی ہوگئی ہیں بس ایک خواہش رہ گئی ہے کہ مجھے وہ مل جائے جس نے مجھے نئی زندگی دی ! میرا نیا جنم ہوا ہے اور موت کو شکست دے کے زندگی کے دہانے پر کھڑی ہوں کہ ابھی جنگ تو باقی ہے ! پھر میں اندر چلی گئی جہاں خواتین کے لیے مخصوص ہے ۔
اندر خواتین قران خوانی میں مصروف تھیں جبکہ کچھ نماز میں ۔۔۔ میرا دل باہر بیٹھنے کو تھا ! مگر حبس کی وجہ سے اندر خواتین کے لیے مخصوص جگہ میں بیٹھنا پڑا ۔ وہاں پر لگا پنکھا زندگی کی آہستگی کے بارے میں پتا دے رہا تھا جبکہ اس پر لگے جالے ہماری اوقات کا ! قران پر قران پر پڑے دیکھ کے خیال آیا کہ قران سمجھنے کے لیے تھا مگر یہاں مارکیٹ بننے کے بعد اس طرح جزدان میں بندھنا مقدر تھا ! کچھ خواتین قران پاک جزادان سے باری باری نکال رہی تھیں اور اس کا پہلا صفحہ کھول کے الحمد شریف کی پہلی لائن پڑھنے کے بند واپس رکھتی جارہی تھیں ۔ استفسار پر بتایا کہ منت مانی تھی جو پوری ہوگئی ہے ۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پڑے قران پاک کب سے بند پڑے ہیں ان کو کسی نے کھولا ہی نہیں ! دل کو بھی کسی نے نہیں کھولا نا ! یہاں پورا کا پورا قران رقم ہے مگر کسی نے دیکھا بھی نہیں اور سننے کے لیے دل کی سننے کی سعی کون کرے ! یہ دن میرے شکر ادا کرنے کا تھا کہ میں پورے اک سال سے زائد عرصے سے بیماری سے لڑتے ہوئے بالآخر صحت یابی کی جانب چلنے کی سعی میں ہوں ۔۔میں کوشش میں ہوں گوکہ میرے اندر وہ توانائی نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی مگر یونہی چلتے چلتے میں اپنی توانائی حاصل کرلوں گی ۔ ان شاء اللہ