Sunday, November 22, 2020

کسی بھی طور شبِ غم کی پھر سحر نہ ہوئی

 کسی بھی طور شبِ غم کی پھر سحر نہ ہوئی

نصیب میرا، دعا بھی تو کارگر نہ ہوئی

نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب رہی مری پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی

یہ بند غم ہی نہ ٹوٹا، نہ ٹوٹا رشتۂ زیست
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی

ترا خیال حقیقت کی تاب میں ہوا گم
وہ رعبِ حسن کہ اپنی بھی کچھ خبر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

خیالِ یار نے بیگانہ کردیا کچھ یوں
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی