Friday, February 26, 2021

نماز***

نماز پڑھ!  نماز پڑھ!  نماز پڑھ!
گیان نہیں، مکان نہیں، جہان نہیں 
تو جلوہ گر ہوگا تو قضا بھی ادا 
فقیر کے سر پر ڈال دے گا وہ ردا
وہ ہے تو سب ادا، وہ نہیں تو سزا

نماز میں دستار باندھی گئی کسی شاہ کے والی کے،  دیکھنے والوں نے شوق کے مارے سرجھکا لیا، کہیں لاگی میں دم نہ رہے. دم نہ رہے تو گم رہے کون. اک جدا ہوتے ساتھ ہے،  اک ساتھ ہوتے جدا ہے. یہ خیال ترے سدا بہار ہمارے قبلے بنے. ہم نے دستارِ شوق میں قیام کی حالت سے،  سجدے کے حال تلک دیکھا ـــ حــم ... اس کی رمز نہ جانو، جو جانو تو تیار مذبحِ وقت میں سر کا سواد قضا نہ جانو!  وہ لیتا پہلے ہے اور دیتا بعد ہے. وہ فصلِ گل و لالہ کی لگالیتا ہے اور کربل کی زمین میں راکب کو ثاقب بناتا ہے. شامیانے جہاں لگے ہیں،  آستانے وہیں کے، جہاں ناز خاک نے کیا کہ یہ کس سجاد نے فخر بخشا.  وہ نماز بدلتی رہی؟ نماز بدلتی ہے؟  نماز نذر کا نام ہے، نماز ہدیہ کے نام ہے،  جان ہدیہ ہوئی تو نماز قائم ہوئی. جس کا اپنا کچھ نہ تھا، یار اس کے سنگ،  وہی تو ہے مست ملنگ، جس کو ملے ہست ہست سے رنگ، یہ ستار ہے رنگ برنگ!  کس نے پوچھا تھا کہ دستار باندھی کیوں جاتی ہے؟  کس کو بتایا گیا تھا کہ جس کو سرداری دی جائے، جسکو شوق کی سالاری دی جائے، جس کو قائم سواری دی جائے، جس کو یاری دی جائے کہ اسکو باری دی جائے.. پھر جان وار دی جائے کہ کہنے میں،  سننے میں قصے ہیں!  دکھ جائیں تو اجالے ہیں ‍. سالک کو چاہیے دیکھے تمام سیر کو اور حلقہ ء بگوشِ دستِ خرامِ مہرِ نبوت کے رہے کہ رہنے والوں نے دستِ الوہی میں تن دان دیا، من دان دیا. کیا  قربان ہوا، کیا نہ قربان ہوا یہ حساب نہ رکھا. اس لیے خدا نے ان کو بے حساب دیا. اجر ِ رحیم محبت ہے . رحمت سے رحیمی ملتی ہے اور رحیم بانٹ دیا جاتا ہے.