سفر کا آغاز شروع نہیں ہوتا مگر جب بچہ قدم رکھتا ہے ـ قد بڑھ جاتا ہے اور شعور پختہ ہوجاتا ہے ـ روح کا شعور سمجھنا پڑتا ہے یعنی شعور میں لانا پڑتا ہے ـ تم فلک پر بیٹھ کے وہ لکھتے ہو جو وہ لکھواتا ہے، تو پھر شعور بیدار ہے مگر تم زمین پر رہ کے اسی میں کھو گئے ہو تو زمین کی ناسوتی نے تم کو گھیر لیا ہے ـ فلک پر مقیم ہونے کے لیے طائر کو پرواز چاہیے ہوتی ہے. پرواز کو پر لگانے والا جانتا ہے نور کن ہندسوں اور کن حروف سے منتقل ہوتا ہے ـ تم کو آیات نوری چاہیے اور تم نہیں جانتے کہ خدا تم کو یہ آیات نوری دینا چاہتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نور اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے ـ دائرہ مکمل ہوتے ہی فرق مٹ جاتے ہیں ـ تب ہی دوئی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ـ وحدت کی جانب سفر کا آغاز خشیت سے ہوتا ہے جب روح کو جلال ملنے لگے تو یہ مقام ہے ـ مقام اقرا. یہ مقام لاہوت ہے. مقام لاہوت پر جائے بنا لفظ اقراء کے مکارم سمجھ نہیں آتے. جب لاہوت پر مقیم طائر جاننے لگتے ہیں تو ان کو ترس ہونے لگتی ہے کہ قراءت ہو مزید. ھل من مزید کرتے کرتے ان کو سرر کی منازل میں وہ سب طے کرایا جاتا جس کے واسطے ان کو عبدیت کا درجہ ملنا ہوتا یے. ہم چاہتے ہیں کہ انتخاب کریں تو ہمارا انتخاب کا طریقہ یہی ہے کہ دینے والا بس تسلیم میں رہے کہ بقا ہمیں ہے. یہ ہماری کرسی ہے جس پر ہم قرار کیے ہوئے ہیں. ہم دیکھتے ہیں تو روح دمکنے لگتی ہے. اسکو ہماری چاہت ہے. اے طائر، تو نفس کے دھوکے و فریب میں پھنس کے اس کرسی کو اپنی کرسی مت سمجھنا ورنہ شہ رگ سے جو قلبی قلبی فرشتہ ہے، جان کنی کے عالم میں اس سے ملنا محال ہو جائے گا. ہم نے جو عطائے غیب سے عطا کیا ہے وہ اک جریدہ ہے. اس پر جو تحریر ہے وہ فیکون کا وہ علم ہے جو تکوین کا محتاج ہے. ہم نے چاہا کہ پرواز دی جائے تو ہم چاہیں گے ایسا ہوگا. کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہمارے قانون میں دخل ڈالے
اے طائرِ سدرہ! تجھے کس بات نے دھوکے میں ڈآل رکھا ہے؟ یقین کے بنا کچھ ممکن نہیں ہوتا ہے. جب تک نوری ہالہ مکمل نہ ہو، تب تک وہ مقام مقربین کا جو لکھا ہے، وہ ملتا نہیں . نقطے سے سفر شروع ہوتا یے دائرہ بنتا ہے اور دائرہ پھرنقطے تک لوٹ آتا ہے. سو لوٹ کے ہمارے پاس آنے والی روح، اطمینان سے رہ! سمیٹ لے یہ اشک اور سجدے میں رہ. خدا ساجدین کو محبوب رکھتا یے خدا صابرین کو محبوب رکھتا یے