حرف گریہ! حرفِ گریہ! حرفِ گریہ
محذوف دائرے! لامکان کے پنچھی چلے پرواز کو، جانب عدم جانے کس کا پہرا ہے! اکہر ہے! اکہر ہے! جی شام سے سویرا ہے! نوید ہوئی ہے کسی نے کہا کہ نوید ملی ہے! کسی نے جبین جھکی ہے! کسی نے کہا سجدہ ہوا ہے! گگن پر لالی ہے، افق کے ماتھے پر چاند ہے ـ سجاد وہ ہے جس نے سجدہ کِیا ہے ـ یہ سُحاب جو چھائے ہیں، یہ ساون برسنے کی نشانی ہے ـ یہ جو برس رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ فرض کیا کہ یار ملا ہے مگر ملا نَہیں ـ یہ قاف جو عشق کا ہے، جو سین ہے وہ "ن " سے نکلا ہے، قلم لوح جب اصل کاتب سے ملنے لگے تو وصل ہوتا ہے ـ یہ مگر درد ہے ـ عارف کی زمین پر درد بہت ہے، کرشمہ ہے! کرشمہ ہے! کرشن بھی وہی، رام بھی وہی، خدا بھی وہی. حرف مگر اک ہے، حرفِ دل نے کتنے نام دیے ہیں اسکو، وہ نام سے مبراء ذات ہے! وہ حال سے مجلی عین بات ہے. تم اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو اس انسان سے بات کرو جو اس سے اتصال میں ہے. حقیقت میں وہ وسیلہ ہے اور مخلوق بنا وسیلے کے نہیں ہے. اسکی کرسی جس کے دل میں مقرر ہو جائے، وہ اس کا کان، ہے وہ خود سناتا ہے اور خود سنتا ہے خدا نے درد میں سرگوشی کی ہے کہ مخلوق درد میں ہے، جذب نہیں تو انجذاب نہیں! تقسیم ہے انتقال کی! یہ ہم ہیں جو منقسم ہو رہے ہیں، یہ ہم ہیں جو قرطاس ہیں، یہ ہم ہیں جو قلم ہیں، قرطاس کی چاندی نور ہے، اس کے ورق ورق میں وہ ظہور ہے! شبیر و شبر کی بات کرو تو جلال میں جو ہو، اسکا وظیفہ بھاری ہوتا ہے اس کی قربانی عظیم ہوتی ہے. قبلہ عشق کا ملتا ہے اسے، جس کی رگ دل سے چھری سے جاری خون کسی مینڈھے کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ دید ہوتی ہے ـ یہی حج ہے! خلقت چاہے سوا لاکھ کالے کپڑے کے گرد پھیرے مارے، گر دید والے سے نہ ملے تو شریعت قائم رہ جاتی، ظاہر کا بھرم رہ جاتی. اندر خالی رہ جاتا ـ اندر نور نہ ہو تو فائدہ نہیں نماز کا ـ افسوس ایسے نمازیوں پر جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی ـ افسوس ایسے نامی حاجیوں پر جن کا کالا رنگ نہ اترا، افسوس اس وقت پر، جس کو رنگینی میں ضائع کردیا گیا ـ ہائے! وہ ملنے آیا تم سے، تم نے برتن میں نجاست بھرلی. وہ تو مرج البحرین یلتیقان کی مثال قائم رہتا ہے جب تک کہ نور بجھ نہ جائے. اللہ تو نور کی تکمیل چاہتا مگر جو نور کو خود بجھا دے. ان پر افسوس کیا جاتا ہے. آج خدا نے افسوس کیا ایسے دلوں پر جنہوں نے اس کو زبان کے پھیرے سے مطلب کے لیے رکھا، جنہوں نے خیال میں سجائی کائنات ـ وہی اصل ذاکرین ہیں. انہی ذاکرین نے الکرسی کی مثالیں بنانی ہوتی ہیں جلال والے نینوں میں. کرسی والا چلا جاتا ہے ذاکر کے دل میں اور الحی القیوم کی صدا آتی ہے ـ ھو الباری ـ اس نے میرے عناصر کو ترتیب دے دیا ہے، میرے اجزاء میں خاص لعل ہیں، کہیں عقیق ہیں تو کہیں نیلم. یہ نشان روح پر پڑتے ہیں جبکہ روح امر ربی ہے جو صدائے کن کی واجب ہے. وجود اس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے اور رگ میں جان نکالی گئی باقی جان نے ھو ھو کہا گویا اک رگ سے جو پانی نکلا باقی وسیلے بنے ھو، ھو کہتے رہے