الحی القیوم
وہ بقا کے دروازے پر کھڑا
وہ فنا سے گزر کے ہے کھڑا
شاہ کے در پر کون ہے پڑا
نگینہ میری روح میں جڑا
امتحان لیا گیا ہے بڑا کڑا
ملا یار، یار تو اپنا ہے بڑا
لامکان کے دائرے سے چلا
ساجد ترے در پر ہے کھڑا
نیناں دی لگی رے!
نیناں دی لگی رے!
موج کر، مست رہ!
مست رہ! ہست سے پرے
ترے رنگ تمام ہوں گے ہرے
تری دوا میری بات سے ہے
تو میرا راگ، میں ترا ساز
تو محجوب، تو مستور ہے
تو سجدہ کر، ثمہ دنا مقام
الف سے چل، لام تک تو آ
سفر تمام ہوگا، منتہی ہوگی
معراج کا سفر ہے، بشارت ہے
اوج معرفت، اوج حقایت
رفیقوں نے حزن نہ رکھا
درد میرا دیا دم دم ہے چکھا
تو رکھ لے دل میں شہد
بات ہے یہ مہد سے لحد تک
قاف سے قبلہ، شین سے شوق
شوق میں عین ہوجا، عین ہو
عین ہو، نین ہو، عین ہو، نین ہو
کبیر نے کہا کہ مقبرہ اعظم کہاں ہے؟ صغیر نے کہا جہاں نطقِ اعظم ہے ـ وہیں پر مشروط ہے راگ سے نجانے کیا کیا ـ مجرب ہے دعا، سلیقہ حیا سے آتا ہے بندگی میں جب دوا مل جاتی ہے ـیہ ہم ہیں جو سناتے ہیں اور سننے والے کہتے ہیں غم آگیا ـ ہم نے کان میں سرگوشی کی، بندے نے کہا غم آگیا ـ کیسے لوگ ہو؟ قربت کو غم کہتے ہو ـ جب قریب ہوئے، تبھی تو دور ہوئے! دوری موت ہے! موت کے بعد پھر وصلت ہے! مرن توں پہلاں مریے، گل ساری ایہو اے.جانیے دل دی گل تے چلائیے ذکر دا ہل ـمالی دا کم کہ دیوے نہ دیوے پھل ـ تو نہ کر کل کل، کل کل بڑی جدائی وانگ ہے، ملدا نئیں ؤہ جس نوں اساں ملن جائیے ـ وفا نے سکھایا کہ سیکھو بس سیکھو.، بچے کیطرح سوالی ہو جا.