Saturday, February 27, 2021

ستارے ‏سے ‏ملنا ‏ہے ‏****

ستارے سے ملنا ہے اور ستارہ ذات میں مانند شہاب ثاقب ٹوٹا ہے. زمین ساری دُھواں دُھواں ہے. عالم ذات میں متعدد آئنے ہیں اور مرے عکس و شبیہات رقص میں ہیں. لاتعداد شعاعوں نے مجھے گھیر لیا ہے کہ آنکھ چندھیائیں دیں.

اٹھو! غازیِ کوئے جناں 
اٹھو! شہید وادیِ حرا 
اٹھو! مرگ نروان جان 
اٹھو! تنگی آسانی مان


فلک سے سیڑھیاں -- میں نے زینہ بَہ زینہ دیکھیں ہیں -- زینہ بہ زینہ رسائل تھما جا رہے ہیں اور زمین مری خبریں ایسے نشر کر رہی ہیں کہ جیسے میں منشور الہی ہے. میں کتابِ الہی ہوں اور مجھ میں حیدری شمیشر رکھی گئی ہے جس کے وارث سیدنا امام حُسین رضی تعالی عنہ ہیں

ستارے کی بات کرنے سے پہلے لمبی رات کاٹنی پڑتی ہے  شبِ ہجرت کا دھواں شبِ وصلت کو جَنم دیتا ہے  اشک کے وظائف سے سجی رات جب صبح میں ڈھلتی ہے تو طٰہ صبح کے اُجالے میں مقامِ ادب ہے. یہ جلال کی عین نمود ہے جو دل میں شَہود ہے. راز میں، وہ وجود ہے. میں کس جہاں میں موجود ہوں؟  یہ جہاں جہاں جاؤں قدسی ہالے ہیں اور نوری دوشالے ہیں. مہکِ گلاب سے فضا سرخ سرخ ہے اور اشجار سلام میں جھکے کہہ رہے ہیں 

امت کے رہبر کو سلام 
شمس الدجی کا سلام 
علیین کی جانب سے ہے 
سلام میں ہوتا ہے  کلام 
بات کرتا دل صبح و شام 

کلام کِیا کیا؟
سحاب کی روشنی ہیں آپ
گلاب کی  تازگی  ہیں   آپ 
آب گِل میں نغمگی ہیں آپ 
کائنات میں زندگی ہیں آپ 
رفتگی میں آسانی ہیں آپ 
الف لام میم ہستی ہیں آپ 
حا میم  کی بندگی ہیں آپ 
وصلت کی چاشنی ہیں آپ

جمال سرکار میں بیٹھی نور کے دِل پر کالی کملی والے کا سایہ ہے. سایہِ دل میں کمال کی فرحت آپ . نور نے شاہا کی بیعت کر رکھی ہیں، ان کی قدم بوس ذات مری ہے اور سجدہ گاہِ دل مرا جزدان بنا اور قران کی روشنی ہیں آپ.

ارشاد ہے کہ اٹھو،  افلاک سنبھال لو،  افلاک میں سواری کرلو اور شبِ وصلت کی تیاری کرلو ... انتظار ختم!  حال زار ختم!

کہا جاتا ہے فلکیات کا نظام پنجتن پاک سے چل رہا ہے اور پنجتن پاک کی خوشبو دل میں بسی ہے