Friday, February 26, 2021

اک ‏امکان

اک امکان کے پاس، مکان ہے اور مکان میں یاد کا امکان ہے ـ رمز اس کی جدا ہے، خوشبو سے جس کا لکھا جاچکا ورق ہے. یہ سرخ مکان جس کی سنہری دیواروں پر نیلی چادر نے اطراف سے سب رنگ غائب کردیے اور اک دیوانہ،  مستانہ چلا جارہا ہےـ اس مستانے کو ہوش نہیں تھی زمانہ کیا جانے اس کے گیتوں کو ـ وہ سازِ الوہیت میں مست تھا،  غائب کیا جانے حاضر کیا ـ یہ تخت،  یہ مسند،  یہ آئنہ جو اس کے لیے بنایا گیا،  سجایا گیا ـــ یہ وہی تھا جس کا وہ ہمراز تھا ـ اک پکار، اک چیخ تھی جب وہ مسند نشین ہوا ـ شاہی ملنے پر واویلا کرنا؟ کون جانے شاہ ہونے والے کو لازم،  شمع کو گُل کردے اور شمع پھر بھی روشن رہے ـ یہ گِل جس میں گُل کھلیں تو خوشبو تن من میں پھیل جاتی ہے  خوشبو بھی خالی نہیِ بلکہ ھو کی صدا ہے ـ یہ قاری جو اندر ہے وہ کہتا ہے لاتحرک بہ لسانک  اور جب اس قاری سے قرات کے اسرار کھلتے ہیں تو عقل دنگ ہو جاتی ہے ـ بلند بانگ دعوے؟  انسان کی مجال نہیں وہ دعوی کرے!  یہ تو کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے،  درود ان پر بھیجا جاتا ہے جن کی نماز قائم ہو 

اے قائم ہونے والی نماز 
اے قیام کرنے والے شجر 
اے تسبیح کرنے والی رات 
اے گردش کرنے والی صبح 
اے تضاد والے چاند 
اے محورِ روشنی رات کے 

بتا کہ کائنات مجذوب ہے، کائنات تری یکتائ کی تسبیح پڑھ رہی ہے اور بندہ دوئی میں گم، تضاد میں گرفتار. اللہ کا نور، وہ چراغ جس کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی کہ وہ تضادات سے پاک ہے اور ہم اس کے حضور پیش ہوتے ہیں تضاد لیے ـ ہماری دوئی کے نقش کب جھوٹے ہوں گے؟  ہمارے پالنہار نے ہمیں محبتوں میں سمو رکھا ہے اور فرماتا ہے" انما امرہ اذا ارادہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون " انسان صاحب امر ہوجاتا ہے جب وہ صاحب کا ہوجاتا ہے ـ جو ازل سے اس کی مانگ ہو،  وہ اسکا ہو کے رہتا ہے ـ وہ لاتا ہے واپس اسکو اپنی رہ پر، چاہے پیار سے، چاہے ٹھوکر سے اور جب پیش حضور عالم غیاب سے کلام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے بتا ترا کوئ نقش ہے؟  جس کے دل میں علم ہوتا ہے،  عرش کا پانی ہوتا ہے وہ کیا جواب دے؟  وہ ایسا صاحب حال ہو جاتا ہے جس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ـ درد میں آواز نکالنا نعرہ منصور جیسا ہوجاتا ہے اور سزا تو وہ اپنے محبین کو دیا کرتا ہے ـ قلم چلتا ہے قرطاس پر نور بکھر جاتا ہے ـ قلم کیا ہے؟  قرطاس کیا ہے؟  قلم اور قرطاس ایک ہیں؟  من و تو کا جھگڑا تو ہے نہیں ـ وہ رگ جان سے اتنا قریب ہے کہ سانس اس جاناں کے بنا لینا دشوار ہے مگر سانس کے کارن ہی ہم اس کو محسوس نہیں کر سکتے. وہ قلب سے مقلب القلوب کو حی قیوم کی کرسی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کرسی تری ہے ـکرسی پر بیٹھنے والا اگر گھبرا جائے تو فائدہ؟  اس نے تو کہا جا تجھے ستاری دی، جا تجھے شاہی دی،  جا تجھے محبت کے بیش بہا جواہر دیے ـ اب کرسی والے کو چاہیے وہ تقسیم کرے کہ کرسی والے،  کرسی کی مثال لیے ہوتے ہیں ـ یہی ہوتے ہیں جن پر حیات دوامی کا اصول نافذ ہو جاتا ہے ـ تکبیر پڑھنی ہوتی ہے " اللہ اکبر " جب تحفہ ملے تو سمجھ لو کہ تحفہ اک کو اک سے ملاتا ہے. وحدت کی شراب جاری ہو جائے تو میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ ہی میخانہ بن جاتا ہے 
شہنائی والی اک صدا بہت دور سے سنی جارہی ہے اور دل رنگ والا ہے ـ رنگ نے رنگ والے کو غنی جانا ہے اور رنگ ایسا دیا کہ رنگ ہی رہا،  مل گئی ہستی اور اتر گئی خاک کی ملمع!  یہی شمع ہے یہی حق کی جاری قندیل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے وہ طاق میں چراغ ہے. چراغ الوہی ہے اور راگ الوہی ہے ـ جب روشنی اور راگ مل جاتے ہیں تو فرشتہ حاضر ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے " بتاؤ،  کس نے کس کو جانا؟  " بس کہا جاتا ہے اندر نے اندر سے صدا لگائی. جس نے پہچان کرائی. جس کو پہچان ہوئ. وہ دونوں اک ہی ہیں 

ماہ و سال کی گردش میں تضاد سے بندہ گھبرا گیا ہے اور وقت کو کہتا ہے رک جا ـ وقت رک جائے تو حم کا مقام آجاتا ہے ـ معراج مل جاتی ہے ـ معراج کا مقام صدیقیت ہے،  ولایت ہے،  عین علی کا فضل ہے،  عین علی رضی تعالی عنہ سے حسینی نور کی تمثیل ہے ـ پوری کائنات کا آئنہ اک ہے مگر منقسم پنجتن پاک میں ہے. مجذوب بیٹھا علی علی کہتا ہے ــ اخلاص تو یہ ہے جو کہا،  جس نے کہا وہی وہ ہوگیا ـ بات تو ساری اخلاص کی ہے. یہ حق موج ہے جو سینے میں پیوست ہے ـ یہ مرجع العلائق سے خلائق تک سپرد کی جانی والی وہ تلوار ہے جس نے دلوں کو چاک کرکے بس نظارہ ھو دیکھا یے