Friday, February 26, 2021

فنا

عشق کا عین اس کی یاد میں فنا ہوجانا ، فنا ہوکے پھر سے زندگی پالینا ہے ۔ وہ تری آنکھ ، ترا ہاتھ اور کان بن جاتا ہے ، اندر کی کائنات بدل جاتی ہے ، وہی نظر آتا ہے ، دل کے دھک دھک میں وہی دکھتا ہے ، خون کی روانی میں شور اس کے ذکر ہوتا ہے اور اپنی حرکت میں اس کے نام کی تسبیح ہوجاتی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم کو ٹکرے ٹکرے کردو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح انا کا غبارہ اندر کی روشنی پر جالے بناتے ہے ، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ بس اپنی تو روح اڑ گئی ، ذرہ کی کیا مجال سمندر کے سامنے! میرے اندر یار کا گھر ہے اور میری انا کی روح اڑ گئی تو بس میں ایک مکان ہو جہاں میرا یار رہتا ہے ۔میں فانی ہستی کو چھوڑ کے بقا کی منزل پر قدم رکھ رہی ہوں اور لوگوں کو پیچھے کھڑا دیکھتی ہوں ۔میں فلک کی جانب پرواز کر رہی ہوں اور مجھے دیکھنے والی آنکھ کھو گئی ہے ۔میں نے  بعد پرواز کے بادلوں کے مالک ، نور الہی کے گھر دستک دی اور ایک کے بعد ایک فلک  کو پار کرتی رہی ، یوں جیسے سمندر کو پار کر رہی ہوں ۔۔۔ سفیر پرندے اک دائرے میں ذکر میں مصروف ہوتے عشاق کی قربانی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہوں کہ شاید میری قربانی کے بارے کوئی بات ہو! مجھ سے سوال کیا جائے مگر وہاں تو کارنامے بتائے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔کوئی بھی ہستی قربانی دیے بغیر عشق کی منرل پر سوار نہیں ہوتی ہے ، عشق مانگتا ہی قربانی ہے جس کو دینے والے وجود ، دے کر ، خود کو دوامت اور ہمیشگی بخش جاتے ہیں ۔