متلاشی نمبر ۴
گلاب کی لالی میں رنگ جھلکتا ہے. اس میں جذب ہوکے دیکھو .یہ آیتِ التکویر کا فضل ہے. غیابت بس حجاب ہے. اسکا جمال روشن ہے.
تصور مصور سے بنتا گیا ہے ، یہ ہستی سفر میں بہلتی گئی تجلی نے دل کو منور کیا ہے، مقامِ حرا میں بسیرا انہی کا
یہ تاریکیاں چھٹ رہی ہیں
فنا ہوتے ہیں، راز جو پاتے ہیں. اسم اللہ میں وہ بے حجاب آتے ہیں ...وہ فاطمہ کن کی تعبیر ہیں، وہ نور علی النور کی تحریر ہیں .فلک بھی انہی کا ہے. زمین بھی انہی کی ہے.
وہ فیکوں کی پیاری تکبیر
وہ ہیں اللہ کی پیاری تحریر
یہ شَہادت جو لفظوں نے پائی
یہ سیادت جو لفظوں نے پائی
در دریچے سبھی منّور ہیں
میرا گھر ان سے مطہر ہے
دہر میں آشنائی عشق سے ہے
میری تو بات بن گئی ہے
بات ہوتی ہے انسان کیا ہے؟ انسان کا عالم کیا ہے؟ عالم میں لیل نہار کیا ہے؟ اس در میں روزہ و حج کیا ہے؟ انوار حجاب سے نکلتے ہیں تو قربانیاں ربط مربوط کیے دیتی ہیں. یہ روابط ایسے ہیں جیسے روشنی گھر میں ازل سے ہے ...
میں نَہیں ہوں، وہ فاطمہ ہیں
میں نَہیں ہوں، وہ طاہرہ ہیں
میں نَہیں ہوں، وہ واجدہ ہیں
میں نَہیں ہوں، وہ رافعہ ہیں
میں نَہیں، ہے علی علی کی صدا
میں نَہیں، سرخ پوش کی ہے ردا
میں نَہیں، یہ حُسین کی ہے بات
میں نَہیں، یہ حَسن کی شہادت
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
میں نَہیں، بات ہے محمد کی
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
میں نَہیں، بات ہے صداقت کی
میں نَہیں، بات ہے روایت کی
تارِ زلف میں چمک محمدی ہے
نوری ہالے میں جَذب محمدی ہے
کربلا میں حسین کی تلاوت
سر جھکانے کی وضع محمدی ہے
شاہ قلندر جلال میں کامل
شاہ قلندر حسینی لعل ہیں
حیدَر ثانی، سرخ پوش ہیں
آنکھ وُضو کرکے جن کو دیکھے، وہ نبوت کے سلاسل کے چشم و چراغ. وہ حلم کے نقطے کے کامل اقتباس ہیں. وہ جلالت میں، امامت میں ابن علی ہے. وہ سخاوت میں شانِ زہرا علی ہیں ... جب وہ لب طراز ہوں، میں محو اقتباس ہوں، قلم کے ریگزار کو ابر باراں تلک لائے ہیں، جب سے ان کی دست جبین تک آئے ہیں ...