ساری خطائیں جب حل کرلیتا ہے ایسے کہ شفافیت بچتی ہے تو آئنے سے کامل سائیں ابھر آتے ہیں کامل سائیں سچے سائیں ہیں. ان کی شبیہ کا دل ہر ہالہ ہے وہ الوہی مشفف انوارات سے بھرپور مجلی ہو تو درون سے اُجالا باہر پھیلنے لگتا ہے. لوگ ظاہر والے پر حیرت کناں ہوجاتے ہیں مگر یہ تو درون کی کرشمہ سازی ہوتی جو ظاہر ہو جاتی ہے
اللہ فرماتا ہے
ھو الظاہر ھو الباطن
کامل سائیں بارے یہی بات ہے
ھو الظاہر، ھو الباطن
بس درون سے پیمانہ کا رنگ ظاہر چھلکتا تو اس کے ساتھ مقناطیس پر لوہا چپکنے لگتا ہے. کشش والو! آو کہ دیکھو قطبی مقناطیس کتنا کشش والا ہے. قطب والو آؤ ..قطب پالو ... قطب سے برقریزی نے ظاہر کیا؟
کیا شعاع شمال و مغرب کی محتاج ہے؟
شعاع دراصل مرکز سے نکل پھیل رہی ہے لوگ سمجھ رہے ہیں قطب پر الوہیت زیادہ. حقیقت مل جائے تو کیا چاہیے کہ بندہ سچائی ہو جاتا ہے. سچے انسان کے ساتھ سچی ذاتیں ہوتی ہیں. اس لیے نسبتیں حقیقت میں فیض دینے لگتیں ہیں اور لوگ فیض لینے آجاتے ہیں. فیض دینے سے روکنا زیادتی ہے اور فیض تو پھیل کے رہتا ہے. جس طرح خدا کا نور پھیل جاتا ہے اسی طرح نوری شعاعیں متصل آئنہ دل میں ہیئت کدہ ہو کے خوش خصال خوش مقال خوش جمال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل ڈھال لیتی ہیں. بندہ پھر کہاں جاتا ہے. انسان فنا ہو جاتا ہے اور بقا کے در والے سے بقا کے مرکز تلک قافلے والے مل جاتے ہیں. فنا میں داخلہ ہے اور بقا والے ظاہر ہونے والے ہیں
جسم میں اک شعاع رقص میں ہے. وہ شعاع کس لَو سے نکلی ہے. عشق کی جل اٹھی ہے کب سے مگر جلانے کی تیاری تو اب ہوئی ہے. جب تک کالا رنگ نہ مل پائے گا یہ جلاتی رہے گی. اس کالے رنگ پر رنگ کالا چڑھ جائے تو نیلا رنگ کہاں سے اٹھے گا؟ یہ تو کامل سائیں جانیں گے اور سرکار والوں کی مرضی جیسے چاہیں دیں اور جیسے چاہیں لیں. ہم تو نیاز والے ہیں. ہم نے نیاز سیکھی ہے کہ غلام نے سر جھکایا ہے کہ نہ انعام کی لالچ نہ سزا کا خدشہ بس جلوہ دائم رہے چاہے دنیا ساری ادھر کی ادھر ہو جائے ... ذوق یہی ہے کہ کھال اتار لی جائے اور کھال اتر جائے تو کپڑا کے پیچھے کیا بچتا ہے؟
ھو الباطن سے ھو الظاہر کا سفر ہے.
کسی نے درون میں جذب ہونا ہے
درون والے نے بیرون والوں کو جذب کرنا ہے
یہی تو کلمہ ہو جانا ہوتا ہے اساسِ ایمانیات یہی ہے کہ کلمے کی عملی تفسیر کا نتیجہ یہی ہے کہ سب ہیرپھیر کے بعد بچے تو جلوہ ء محبوب