قبیلہ قیس سے بنو مضر تک ایک شخص ایسا تھا جس کو رب سے بہت پیار تھا. حق تو یہ ہے کہ وہ رب کا دلارا تھا ...جس کے پاس بھیڑ بکریاں سکون سے پھرتی رہتی تھیں، جس کی نماز حضورِ یار بنا نامکمل رہتی تھی ...وہ جس کا دل بنا کسی تحقیق کے، بنا کسی جستجو کے براہ راست حقیقت سے استوار ہوگیا ...جسکو شک نہ تھا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ..جسکی محبت پر اصحاب کو رشک آیا تھا .....سیدی اویس قرنی ...کیا کیا عاشق رسول ہیں ...کیا کیا عاشق رسول ہیں. حبِ رسول سے روح جسکی گندھ جائے، وہ مہک جائے، مدح و توصیف میں بہہ جائے، وار تیر و خنجر کے سہہ جائے، قاتل تلک کو عفو کا سندیسہ دئیے جائے، یہ چمن ہستی کے چمکتے چمکتے سرخ، نیلے پیلے، ننھے ننھے سے پھول، ان سے رنگِ گلزار دیکھیے، سارا عالم بہار دیکھیے، چہرہ یار دیکھیے، آنکھ ہو تو بار بار دیکھیے، دل سے دل کے وار دیکھیے، دیکھیے، شہِ ابرار دیکھیے، آنکھ تو ہے، اشکوں کے ہار دیکھیے، جبین جھکے تو اظہار دیکھیے،
وہ سرحدِ شام سے فارس کی سرزمین سے اک جوان روحی روحی، قلبی قلبی منور نکلا حق کو ..اک کوچہ ء جاناں سے دوسرے کوچہ ء جاناں تک، سرحد ہا سرحد کے فاصلے طے کرتا، جسکے پاؤں کی زنجیر اسکو ہلاتی، تڑپاتی اور وہ چلتا سمتِ یار کی جانب، وہ گلستان عرب میں رسول مدنی کا ظہور .............تڑپتا، سسکتا اک کوچہ ء جان سے دوسرے تک سفر کرتا رہا " رہبری قافلوں سے مانگتا، نشانیاں جوڑتا، ملاتا، دل کے تار سے وقت کے ملاتا اور مشیت کے تقاضے سوچتا، جس کے دل میں نور حزین نے سایہ کررکھا تھا، وہ جسکی روح صدیوں کے حائل فاصلوں کو عبور رکھنے کی اہل تھی ، جانب حجاز مگن، تھا سر پہ گگن، کیسی تھی یہ لگن، دکھا اسے جو سجن، سوچا ہاشمی ہے مگر ہے مگن، ستم نہ کہ کرم مگر شرفاء سا چلن، فارسی تھا مسکن، مہر نبوت دیکھ رکھی ہے، سیدی کی کملی پہن رکھی ہے، چمن کی خوشبو بھلی ہے، ، رخ سے دور اندھیرا، کسی کی عید ہوگئی، آقا کی دید ہوگئی، زلف محبوب کی اسیر ہوگئی، نغمہ گل سے مڈبھیر ہوگئی، شمس کی کیا تدبیر ہوگئی، غلامی کی تطہیر ہوگئی، مدحت نبوی شمشیر ہوگئی، قالب میں قلبی تمجید ہوگئی، گگن سے لالی نے جھانک لیا، دل تھا جو مانگ لیا،
ہوا سراسرئے، یا محمد
پتا پتا لہرائے، یا محمد
سماوات نے کہا یا محمد
زمین بول پڑی، یا محمد
چمن در چمن، یا محمد
کلی درثمن ، یا محمد
گل لحن میں، یا محمد
رب کی صدا، یا محمد
القابات سے نوازے گئے
مزمل سے ہوئی ابتدا
مدثر سے کلی کھلی
طٰہ سے حقیقت پائی
یسین سے دید پائی
احمد بھی، محمد بھی
الف اور میم کا سنگ
شمسِ ہداہت کی کملی
بشر نے تحفتا ہے پائی
بدلی رحمت کی چھائی
زندگی کی یہ کمائی ہے
آنکھ کیوں بھر آئی ہے
قسمت رشک کرے ہے
فلک آنکھ بھرے جائے
میرے باغ میں دو پھول.
نام محمد سے ہوئے ہرے
بوٹا امید کا کھِلتا جائے
پیار جیسے ملتا ہے جائے
شمع کو طلب پروانے کی
جگنو کو طلب بوئے احمد
حق کی تلاوت، سلمان
تڑپ کی سعادت، سلمان
گل قدسی مہک، سلمان
جمال کی انتہا، سلمان
محبت کا ایمان، سلمان
آنکھ کا وضو، سلمان
قفس میں اڑان، سلمان
ساجد کا وجدان، سلمان
ذات با ریحان، سلمان
محفل کی جان سلمان
محشر کی روداد، سلمان
حجر کا آستان، سلمان
عقل با رحمان، سلمان
سلمان کا پوچھتے رہیے، نام سلمان رضی تعالج عنہ نے طرب بجا رکھا ہے، کمال کا نام سجا رکھا ہے، سعید با سعد بنا رکھا ہے، کشف در ححابات بہ ایں حجاب سلمان، صلیب سے یکتائی کا سفر ہو، یا ظاہر سے بباطن کا تماشا، اک واحد یکتا کی داستان ہیں سلمان ..فخر بوترابی، لحنِ داؤدی ہیں، تڑپ میں اویسی ہیں، رفعت میں خضر راہ، کعبہ شوق دیکھنے آئے، دیکھتے ہی کلمہ پڑھ آئے، قریش کیا بھلا سوچیں، غیب کی داستان پہ ایمان لائے گویا عدم سے حقیقت کو وجود میں لائے، حقیقت رسا کلمہ سلمان،