لباسِ تار تار کو رفوگری سے کام کیا
ملے ہیں اتنے زخم، مجھ کواب ہنسی سے کام کیا
ترے خیال کے سبب چراغ ایسا جل گیا
ہوا بجھا نہ پائے گی، سو تیرگی سے کام کیا
بہانہ دید کا بنے، ہو بات آپ سے کبھی
کبھی تو آئیے گھر مرے، مجھے کسی سے کام کیا
ہماری زندگی ہیں آپ، ہر خوشی بھی آپ سے
بلائیں آپ دار پر تو زندگی سے کام کیا
جو ہم کو تیرے میکدے سے جام ہی نہ مل سکا
تو ساقیا ہمیں کسی کی تشنگی سے کام کیا
لہو لہو جگر میں تیر ہے تری جدائی کا
پیا ہے آبِ موت،مجھ کو زندگی سے کام کیا
حضور آپ جو کہیں، وہی کریں گے ہم سدا
فقط غرض ہے آپ سے، ہمیں کسی سے کام کیا
غرض نہیں کسی سے، جب چراغِ دل ہی بجھ گیا
کہیں جو روشنی بھی ہو تو روشنی سے کام کیا