Friday, March 5, 2021

کملی ‏

محمد کی کملی میں چھپ کے، 
غلامی کے اَزبر کِیے ان سے آداب،
انہی سے سیکھی  وَفا کی سبھی رسمیں 
علومِ سرّی سے کُھلے سب نِہاں راز 
مکاں دائرہ، لامکاں میں 
اسی میں ہمی رقص آہن کریں ہیں 
یہ زنجیر سے مچتا جو شور ہے 
یہ میں تو نہیں، یہ کوئی اور ہے
رہائی پہ پرواز مل جائے گر تو
نہ لوٹوں عُمر بھر میں تو 
جہاًں ہجر دردِ ناسوتی ہے 
جَہاں غمِ دل کے قیدی مشقت بھری کاٹیں ہیں جو سزائیں 
جفا پروَری میں حدِ غم سے گزرے  وہی ہیں 
امّید کی آیت پکڑ کے،
ہیں جستجو میں تری ہم
ملے خواب میں وہ فسانہ.
فسانہ نہیں یہ،
 حقیقت کا ہے یہ ترانہ 
مری آپ سے یہ  عرضانہ ہے 
 کہ تشریف یوں خواب میں لانا ہے 
مدامِ نگہ یار میں رہنا ہے 
عجب ربط کا شاخسانہ ہے 
گھڑی دو گھڑی آپ کا مسکرانا ہے