منظم چلو شاہراہوں پر،
یہ رنگ عام نَہیں
کچھ خاص نَہیں
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ...
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے
محبت گویا عالی قدم ہے
چلو منظم ہو جائیں
چلو چلیں کہتے علی علی
چلو چلیں، ذکر علی میں
میرے احساسات پر دنیا بھی رقصِ بسمل کیے جائے
قیمتی ہیں نا، ہاں یہ پارس سے زیادہ قیمتی ہیں
کیونکہ نظمیں مجھ سے ظاہر ہوتی ہیں
رقص بسمل درد کی وہ داستاں ہے
جس میں خالق اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے
جس میں ہم لفظوں کو لکھتے سوچتے کم ہیں کیوں کہ وہ،
سوچتے عامل ہوتا ہے
کاش میرا درد تم سن سکتے
کاش اس کی قیمتِ حاصل تم جان سکتے
یہ مرے ہونے کا وہ درد ہے،
جو عدم میں مجھ کو لے جاتا ہے
اُداسی رگ رگ میں سمائی ہے
نَیا یہ کیا پیام لائی ہے؟
وہ جو کبھی دَریچہِ دل میں جھانکتا تھا
وُہ اب کَہاں کَہاں نَہیں ہے
اسی کا جلوہ چار سُو ہے
دَروں میں، لحظہ لحظہ وُجود پاتا گیا
مگر موجود پہلے سے تھا
ازل کا سفر، ابد کا تھا منتظر
سعی یہی ہے
یہیں سے چلتی ہے
قسم خُدا پاک کی
وہ ذات یہاں قیام میں ہے ...
ہم خلق ہوئے تھے، پھر موجود ہوئے
ہم غائب تھے، پھر ظاہر ہوئے
یہ اس کی توجہ کے عناصر تھے
ہم دھیان میں تھے، خواب ہوئے ہیں
خوابیدہ سی کیفیت اور وُہ
حواس سوگئے اور روبرو ہوگئے
کائنات اسکا مظہرِ عین ہے
نقش تمام سینے میں پائے گئے
جسے اُس جَہاں کی تلاش ہے
میرِ کارواں کے ساتھ چل
چل کے نگر نگر کی خاک چھان
رات کے سمان میں آگ سے بات کر
شام کی ہتھیلی میں انگلیاں دان کر
سرسوں کے پتے میں موتیے کے گلاب رکھ
آج دل میں لوح قلم کی تمجید رکھ
نمیدہ ہستی کو راہ سلسلہ کر