Friday, March 5, 2021

مطاف ‏

مطاف کے سامنے کھڑا انسان، ہاتھ اُٹھائے گڑگڑا رہا تھا ... 

اسی کا عکس تھا، مکان میں مگر اور خاک کے پنجرے میں.کیا بچا تھا ... وہ سجدہ ریز تھا مگر التجائے حرم کو سوچ محرمانہ تھی. زندگی نزع کے پأل پے چل رہی تھی اور ہر دم موت نے لذت سے سرشار کردیا تھا ..  

وہ پھر سجدے سے اتھا مگر وہ دیکھ رہا تھا اپنے عکس کو، مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہالے میں.  گویا طائر کو وہاں بلایا جاتا ہے ...

اس نے ٹہلنا شروع کردیا اور ٹہلتے ٹہلتے ہڈیاں جواب دینا شروع کردیں.   

وہ مقام کربل پہ بیٹھا تھا اور سلام پیش کرتا رہا 

حسین حق ہے اور حق "لا " کیسے ہو 
حسین باقی ہے اور باقی فنا کیسے ہو 
حسین  بادشاہ ہے اور بادشاہ حکومت کیوں نہ کرے 
حسین صبح کا وہ تارا ہے، خدا قسم کیوں نہ کھائے 

والسماء والطارق  ...النجم الثاقب 

وہ ٹہلتے ٹہلتے بیٹھ گیا، گویا نیند میں ہو مگر وہ سویا تو نہیں تھا وہ تو شاہ نجف کے پاس تھا ... 

یہ چمکتا ستارہ دن میں نمودار ہوتا ہے اور رات کی سیاہی سے ابھرتا ہے ... یہی تارے روشن ہوگئے 

وہ تو نہ رہا اور خودی نہ رہی، جبین سجدے میں فقط طلب یار میں محو رہی. یہ فنا تو نہ تھی تو بقا کا سوال کیسے آتا ... چمکتا تارا طلوع کیسے ہو جبکہ اندھیرے کو روشنی چاہیے.