جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا، جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے، روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں، بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں، پہاڑ کی سنگت میں، وادی میں گونجتی آواز میں، پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ
میری ہتھیلی پر اک جگنو چمک رہا ہے ـ یہ جگنو تو بس عکس ہے، اُس اصل کا جو دل میں قرار پائی ہے ـ میں اس نگر سے اس نگر اک تلاش کے سفر میں اور میری من کی سوئی اس روشنی سے پاتی دیپ بناتی جاتی ہے ـ میں کس سمت جستجو کے چکر لگاؤں؟ کس سمت سے پکاروں؟ غرض لامکان سے صدا مکان میں آتی ہے تو زمان و مکان سے نکل جانے کی سبیل بھی موجود ہوگی ـ اب تو لگتا ہے دل پتھر کا ہوگیا اور کیسے اس سے چشمہ پھوٹے گا؟ جب چشمہ نہیں رہے گا تو زمین بنجر ریے گی ـ دل کی زمین بنجر ہو تو ذکر اک وسیلہ بن جاتا ہے مگر ذکر کیساتھ روشنی کا انعکاس ضروری اور دل شفاف ہو جائے تو انعطاف بھی ضروری ـ غرض یا نہ عکس ہے نا کوئی شاہد ہے ـ نہ کوئی قرارِ مشہود ہے. ـ دل ایسے خالی ہے جیسے سونی زمین کو کسی ریتلے تھل سے مناسبت ہو ــــ
کبھی موسم ہو تو بہار بھلی لگتی ہے ـ بہار میں اشجار کے گیت اور ہوتے ہیں ـ جو پتے لہلہاتے ہیں کبھی ان کی خوشی محسوس کرو ـ جسطرح وہ سر جھکائے شاخچے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ذکر خیر کو رائیگاں نہ سمجھو ـ تم بھی یہیں بہار کا نظارہ کرلو تاکہ دل وحدت کی جانب چلے ـ جب وحدت نہ ہو تو کثرت کی جامعیت سے کیا سروکار ہے ـ میں تو اپنے ہاتھ نہ دیکھ سکوں پاؤں نہ دیکھ سکوں، تو کیسے اپنا سراپا مکمل دیکھو ـ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہی تجلی نہیں ملی ـ
یہ تو بولیے جوگی بناتا ہے اور نقشہ بناکے خود بین بجانے لگ جاتا ہے ـ یہ حساب ہے یا طرز عمل کے وہ بین جدائی کی بجا رہا ہے ـ بجی جا رہی ہے اور بجتی رہی ہے ــــ رکی تو زندگی رک جانی ـ اس پورے عالم کو زمانے سمیت اسکے کن کی پھیلی پھونک سمجھو تو معلوم ہو کہ پھونک مکمل ہو تو سیاپا مک جاندا اے ـ سیاپا رولا کیہ اے؟ سیاپا ہے کہ سج گئی اے رات ـ سوہنا یار کہندا کہ تو نہیں تو ـ یہ تو میرا کرم ہے کہ دل بنا حرم ہے ـ یہ غم ہے جس میں آنکھ نم ہے کہ یا شب فراق کا اور ستم ہے؟ وضو کم ہے ! پانی کم ہے! مٹی نہیں زرخیر! مورا ساقی کدھر؟ کدھر جائیے
ساقی کا میخانہ آباد یے یارو
کبھی آپ میں سے کسی نے اک صدا سنی! صرف اک صدا ــ جیسے دور کے دیس سے بانسری کی صدا ہو اور وجود تحلیل ہوتا جائے ـــ جب وجود رہے نہ تب تلک یہ صدا رہے ـ جب وجود باقی نہ ہو تب بھی یہ باقی ہو ـــ ـ ایسی صدا جب اندر سے ابھرے تو اس سے اشک گریزاں نہ ہوں
ہستی کے سندیسے مل گئے ہیں ـ
پرانے ساتھی سب مل گئے ہیں ـ