پیش حق ہیں، محشر کی گھَڑی ہے اور سب بھاگ رَہے ہیں، کہتے ہیں نفسی نفسی! نفس نے خطا، جفا سے ندامت کے پھل جھولی میں ڈال ہے دِیے، ظلمت میں ڈھلے وجود پُکار رَہے ہیں اور سب کہہ رَہے ہیں نفسی! نفسی! .ظلمت تھی اب نور ہے! کیا ہو نفس کی پُکار نفسی نفسی؟ ہاں مقام بشر کا ہے خطا کا اظہار، معاف کرنا قادر کا ہے شعار! اصل قدسی مقام رفعت پر ہے، جوہر ذات محشر بدن میں ہے! پکارا یا رَسول اللہ! صبا نے سکوت دے دیا ہے! دیکھا جو آپ نے، درود نکلا دل سے اور کَہا جگر کے داغ بُہت مگر تیر جدائی کا سینے میں پل پل مارتا ہے! آپ کی مسکراہٹ جو دیکھے وہ دل ہارتا ہے! جو اشک سے دل کو ملے لائے، وہ نصیب کو لڑی میں پروتا ہے
زخمِ جگر میں جھلکتا جلوہ ہے آپ کا، پیارا ہے
دل بہ جبیِں آپ کے جو قدموں میں لائیِں ہیِں
وصل کے لمحات میں کوٰئی کبھی رویا ہے
جلوہ شہد، عکس ہے نور، انہی کو دیکھتے جائیں ہیں
دِل صدائے نَفس سنتا رَہا عرصہ تَلک
آقا پکارے جائیں، سجدہ کیے جائیِں ہیں
خوش لَحن، چہرہ حَسیں، نوری جھَلک، میٹھا سُخن
دیکھتے رَہے انہی کو ہم،کام یہ کر پائیں ہیں