Saturday, January 16, 2021

نزع ‏دل ‏سے ‏جاری ‏آنسو

اللہ پاک قبول کرے نزع دل سے جاری  یہ آنسو، ان سے پیدا ہونے والی خنکی اور خنکی سے قوس قزح کی بجلیاں جن سے قلب سرمہ ہوجائے یا شرماجائے. آنکھ نے کہا، دل نے مانا اور دونوں ہوئے گیانی ... لقد جاءکم رسول  من انفسکم عزیز  علیہ عنتم ما حریص ....... روؤف بھی رحیم ... صاحب الجمال نے اپنی کریمی کی چادر میں جسے چھپایا،  وہی پاگیا گوہر مقصد ...ان گنت درود سیدنا عالی شہ ابرار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر

حق حق آقا آقا ... کس نام سے پکاروں آپ کو؟  کتنے نام آپ کے؟ سارے چہرے آپ کے سیدی ..سارے جلوے آپ کے ...یہ جلال منکشف کی داہنے باہنے راستے ہیں، یہ جمال حیا کی سیڑھیاں ہیں جو فلک تک بلند ہے، یہ آنکھ آنسو سے تر مگر خشک ہے، یہ دل نرم مگر خواہش دید سے حقیقت تک کی بات ہے ...لاکھ چاہوں لاکھ بار آؤں، لاکھ سونے سے پہلے پر تولوں اور پرواز کرنا چاہوں نہ کر پاؤں پائے اجازت سخنی در سخنی 

.قلب سے لازوال  موج کے دھاگے ہیں،  شیریں لبی سے نکلنے والے الفاظ کے میعارات ہیں ..اشکبار دل ..ساون ہے جھڑی لگی ہے ...منتوں مراد کی گھڑی ہے اور شاہا گھڑی ہے مانگنے کی ہے دیجیے ہم.غریبوں کو.تاکہ.دامن خشک، تر ہوجائے گویا لب و بام سے رستا خون تسبیح خوان ہو.....کچھ رحم.رحیمی سے کچھ کرم کریمی سے کچھ.احسان رحمانیت کے صدقے ...کردو کرم

باایں غلام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  سرور تاجدار محمد، تو شمع گزید من شب گزید، تو رفتہ، من پائند،  تو جائے یاد کعبہ، من جان کعبہ،  توئی ستم جانِ بیا پیش دلم،  قرار دلم توئ 
آ شب فرقت کی گھڑی ہے، مانگ محبوب سے تحفہ ء رسالت مانگ،  دلم شاہد مانگ،  جانم فدای مانگ ..او مانگ ارے مانگ
درد جگر چاک کر دیکھا 
پایا جسے، نہ اسکو دیکھا
قریب تھا کہ مرجاتے ہم 
مرتےسمے روئے جاناں دیکھا
قبیلہ ء عشق میں جزو نہیں 
ہم نے تو کل میں سب دیکھا 
ذات کھوئی ضربِ روح میں 
چشم نم میں فنا، بقا دیکھا 
گرتے پڑتے ہیں شاہا، روتے ہیں 
سکندر نے کہاں تجھ کو دیکھا 
قلندر نے کب تجھ کو نہ دیکھا 
آئنہ دل تھا، نور العلی تھا،
نور محمد جگمگاتا، منور دیکھا 
محفلِ بود بہ ایں حضور سرور 
محو رقصم بسمل ایں چور چور

رب کائنات درد دل کو دیکھ 
آئنہ ء رحمت کا سلسلہ تو دیکھ 
رحمانی فضائیں شور نہ دیں 
ٹھنڈی ہوا کا مزہ تو دیکھ لے 
موجوں نے پوچھا نور ہے کہاں؟
شاہ ہادی اشارہ بجانب فلک کیا 
جام در جام اس میخانے سے پیا 
ہم نے محبت میں کیا، نہ کیا کیا؟
یار کو تو ہم نے تجھ سے جدا کیا!
جدائی لمبی،  ہجرت شور والی،
ازل سے یہی تری مری ہے کہانی 
داستان نرانی،  کبریا کی محبت 
یہ کبیر و کبریاء کا سنجوگ عجب 
روگ لگتا ہے،  وہ ذوق ہے الگ

کبیر و کبریاء کی کہانی ہے 
داستان دلم بہ زبانی ہے 
موج شان نے شان سے پوچھا 
رحمن نے انسان سے پوچھا.
کب آئے؟  کب گئے؟ 

یہ آنا جانا؟  سکوت پذیر تری محفل میں ہوں!  ساجد، سجدنی سجدنی سجدنی 

رحمانی جھونکے ہیں،  آسمانی سندیسے ہیں،
یہ میرے نور ازل کے فرمان ہے. یہ میرے کاشانِ دل کے دہر سے رشتے،  یہ تیرگی میں اجالا کس کے دم سے؟  .

ہائے!  ہائے!  ہائے!  یہ غم کے اندھیرے پردہ چاک کرگئے!  ترا مرا رشتہ بے حجاب کرگئے!  میں محو رقص دوش بدوش جانب منزل ...آہا کہ منزل قریب ہے!  رقص بودم می شرر،  غم دل پذیر