"محبت آسمانی جذبہ ہے " میں خود کلامی میں بڑبڑائی
"نَہیں، زمین پر رہنے والے فلک پر رہنے کے قابل ہوتے تو آدم جَنّت سے نکالے نَہ جاتے "
درون میں صدا گونجی گویا پہاڑوں نے بازگشت سُنی بار بار
"محبت افلاک سے اترا سبحانی وجدان کیوں کہلاتا ؟ "
میں نے اس صدائے دِلبرانہ سے پوچھا
"فلک پر صرف خُدا رہتا ہے، نوری، ملائک، روح، کروبیان رہتے ہیں، خواہش سے مبراء ذات کے نظام میں اللہ واحد ہے " صدائے عاشقانہ تھی یا ادائے دِلبرانہ ....
جب سنی یہ صدا تو کَہا میں نے .....
"اللہ واحد ہے، یہ تن کے جا بَجا آئنے اِسکی خواہشات ہیں، وہ واحد ہے مگر کثرت میں راز مخفی ہوگیا ... "
اچانک میرے وجود سے دِلخراش چیخ نکلی، میرا وُجود مجھ سے جُدا ہوگیا .... آمنے سامنے تھا میرا وجود کا ٹکرا ...
میں مبہوت و بیخود ہوگئی اور مجھ سے ذات کا تماشا دیکھنے والے نے تیسرا ٹکرا بنادیا اور بسمل کے سو ٹکرے ہوگئے. خدا وجود کے ٹکرے دیکھنے میں محو تھا ......،
بسمل کے رقص میں حال کی لاتعداد کرچیاں بکھر گئیں اور بسمل رقص میں مصروف ....
" بَتا، یہ تین، اک ہیں یا تین؟ "ذات کے تَماشاٰئی نے پُوچھا ....
میں خاموش کھڑی تھی جبکہ میرا وجود کا ٹکرا جسکو "ماہ " کہتی تھی، ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس تماشے سے وہ ازل سے لاتعلق رہا ہے .. ..
دیکھنے والے دو، تڑپنے والا ایک. حیات کے ریگزار میں دیکھنے والوں کی نگاہ نے زیر پر زبر رکھی، ماہ کی زبر رکھی
"کیوں زیر کیا گیا تھا بسمل کو؟ کس جرم میں زیرو زبر کیا گیا تھا؟ "..
ذات کے تماشائی نے کہا "خاموش، تم زیر ہو، زبر میری ہے، میرا ماہ، میرا قلب ہے، تم کون ہوتے میرے کام میں مخل ہونے والے؟ "..
بسمل کا وجود دھواں دھواں ہورہا تھا، اب خدا بھی اس کا نَہ رہا تھا
،