آج میں نے خُدا سے سَوال کیا کہ دل کے سیپ کون دکھائے؟ یہیں کہیں چھالے بُہت ہیں. درد بُہت مِل چُکا ہے مگر سوال اضطراب سے امکان کو تھا. سوال تو ممنوع ہے مگر میں نے تاہم کردیا کہ مشکل یہ ہے کہ درد وُضو کرنے لگا ہے. جب درد ہستی سے بڑھ جائے تو اپنا نَہیں رہتا. یہ زمانے کا ہوجاتا ہے اور زمانہ اس درد میں ظاہر ہوجاتا ہے. درد سے سوال مناسب نہ تھا مگر رشتہ ہائے دل سے تا دل استوار تو ہوا.
خالق سے مخلوق کا رشتہ تو درد کا رشتہ ہے. درد کے بندھن میں اللہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ دل کا سکون بن کے مثبّت ہوجاتا ہے. اللہ مشعل مانند روشن رگ رگ میں مشتہر ہوجاتا ہے. خدا میرے سوال کیے جانے پے خاموش رہا جیسا کہ میرے سوال میں خاموشی اسکا جواب ہو. میں اس مہیب خاموشی میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ غم کے اندھیرے نے مار مکایا. تری روشنی درز درز سے داخل ہورہی ہے. یہ تو عجلت میں نہیں ہے یہ اضطراب بُہت زیادہ ہے. پھر خدا مخاطب ہوا
طفل مکتب سے پوچھا نہیں جاتا، بس جو دیا جاتا ہے وہ لیا جاتا ہے. غم کی شب میں سحر کے اجیارے اور اجیاروں میں غم ... شبِ فرقت کی صبح وصل کی رات ہوتی ہے .... تو نمودِ صبح کی دُعا ضرور مانگ، مگر گردش رواں کا چکر آگے پیچھے چل رہا ہے "نہ دن رات سے آگے، نہ رات سے آگے دن ہے. بس انتظار