اقربیت کی انتہا کیا ہے؟ اس کے لیے قربت کا مقام متعین کرنا پڑے گا. خدا تو لامحدود ہے اور تم عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو. وہ بابرکت زیتون کا تیل جو ہر انسان کی رگ نسوید میں موجود ہے اسکو روشن ہونے کے دیر ہے اس کے بعد انسان نور علی النور کی مثال اندھیروں کو چیرتا نور کی مثال ہوگا. یہ ہالہ نور کہیں بھی منتقل ہو جانا. یہ مصرف میں بے انتہا ہو جانا یہ کرم سے ہے. قران ایک ہے اور سینے بے تحاشا ہے. کوئ بشر چاہےبھی تو مکمل پیروی نہ کر سکے گا ... اکملیت اک بشر پر مکمل ہے باقی سب سائے ان کی تربیت میں ہیں. انسان نے کہانی نہیں لکھنی بلکہ کہانی نے اس کو لکھنا. انسان کے ہاتھ میں قلم ہے ہی نہیں یہ قلم تو چل چکا ہے. انسان تو آگہی پارہا ہے. آپ سب کیا آگہی پارہے ہو؟ آپ کو وجود سے بڑی بات کیا لگتی ہے؟ وجود میں قلب سے بڑی شے کیا ہوگی. یہ ہم نے سوچا نہیں کبھی کہ ہم خدا کے کتنے قریب ہیں اور ہم مانگتے ہیں اقربیت. نحن اقرب کہتے وہ اعلان کر چکا ہے اور ہم مثل عقرب اپنے مرکز سے دور جاتے ہیں من میں زہر انڈیلتے. زہر کیا ہے؟ برا گمان. گمان کرنا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا ... فعل اللہ کی جانب سے ہے فعل پر ناقد ہونا نہیں بلکہ فعل کے اثرات بڑے دور پذیر ہوتے ہیں ... اک بچہ بن باپ پیدا ہوتا ہے اور نبی بن جاتا ہے ... ہم ناقد ہوجاتے ہیں جبکہ فعل تو اللہ کی جانب سے ہے. ہم جانتے ہیں زلیخا نے عشق کیا سچی طالب رہی. ہم اس کے فعل پر ناقد ہوگئے جبکہ فعل اللہ کی جانب سے ہے. یوسف علیہ سلام نے انسان سے مدد مانگی ... اک نبی نے اللہ سے نہیں مانگا یہ دکھانا تھا فعل اللہ کی جانب سے ہے. انسان لاکھ چاہے تو مفعولیت کے دائرے سے نکل نہیں سکتا. انسان نے ہدایت پانی ہے
کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے. ساری بات اس میں پوشیدہ ہے. اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟ یہ جاننے والے بہتر جانتے