Saturday, January 16, 2021

کوئ ‏سامان ‏تشنگی ‏مہیا ‏کرو

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!​

اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے​

دوستو! عشق کا تحفہ بڑی چیز ہے. جس کو اس سے نوازا جاتا ہے اس پہ اک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ محبوب کے رخ کا پردہ بڑی شان سے اٹھاتا ہے ... جس کو اجازت حجاب اٹھانے کی دی جاتی ہے، اس کو حجاب کے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے. کائنات کی دوئی ہجر کی اساس ہے اور وصل کی شراب عاشق کو دے دی جاتا . "لا " کی تسبیح تھما دی جاتی ہے

لفظوں کو اظہار دیجیے
ان سے بے حد پیار کیجیے
خالق کی نشانی ہیں لفظ
حقیقت کی ترجمانی ہیں لفظ

اک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی. وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ پیغام اجل! و وہی دے سکتا 

ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی. اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا، فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح! آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 

میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت! دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !. سب خزانے ہیچ ..

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے
قلم! قلم کی قسم! قلم کی عطا
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے
!وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
!وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی ہے
وہ وہ ہے جس کے در کی دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے
دیکھ! میری گالوں میں سرخی، ہونٹوں پہ لالی 
میں اس کی ہستی کی مست حالی ہوں
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے

وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے وہی روح ہے۔ جو عشق ہے اس کے انداز تو نرالے ہیں ،محمدﷺ کی صورت میں عشق مکمل ہے

محمدﷺ میں تیری حکمت مکمل
بصورتِ بشر  میں وہ  تیرا   تجمل

محمدﷺ کی ذات کے نور سے امت محمدیﷺ کو فیض حاصل ہوا ہے کہ وہ ان کا آئنہ بن سکیں ۔ حق ً! یہ واقعتا ! نصیب کی بات ہے کہ ہم انہی کی امت ہیں ۔ ان کا ہونا ، ان کی محفل میں رہنا بڑی قسمت کی بات ہے ۔۔امت محمدیﷺ میں بھی چنیدہ لوگ اس بات کے لیے انتخاب کیے گئے ۔تشنگی کا صحرا ، پیاس کے ابر میں ان کی پرورش کی گئی ۔ان پر ان کی نسبت سے فقر کو زندگی کا خاص تحفہ دیا گیا ۔ آزمائش کے واسطے پہل ان کے خاندان سے ہوگئی ۔ ان کا خاندان وسعت میں امت محمدی ہے ، اور حد میں عشاق کا قافلہ اس میں شامل ہے ۔سیدنا امام حسین علیہ سلام اس کے امام ہیں  جن کو نسبت سیدنا حضرت علی رض سے بھی ہے اور جن کو نسبت سیدنا محمدﷺ سے بھی ہیں ۔ ان کی امامت میں چلنے والے حق کا نور ، دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ خاص لوگ دنیا کے لیے تحفہ ہیں ،ان کی ذات کی تشنگی کا سامان بھی تشنگی ہے ۔